Maktaba Wahhabi

73 - 114
نےصاف صاف کہہ دیاکہ اب یہ حصہ ان لوگوں کو نہیں ملےگا۔ ان کےاپنے الفاظ اس بارےمیں یہ ہیں: ’’هَذَا شَيْءٌ كَانَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم يُعْطِيكُمُوهُ لِيَتَأَلَّفَكُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَالْآنَ قَدْ أَعَزَّ اللّٰہ الْإِسْلَامَ وَأُغْنِيَ عَنْكُمْ، فَإِنْ ثُبْتُمْ عَلَى الْإِسْلَامِ وَإِلَّا فَبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ السَّيْفُ. ‘‘ [1] ’’یہ وہ چیز تھی جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس لیے دیاکرتےتھے کہ تمہارے دلوں میں اسلام کےلیےالفت پیدا ہواوروحشت ونفرت جاتی رہے۔ لیکن اب جب کہ اللہ نےاسلام کوقوت وعزت بخشی ہے اورتمہاری تالیف قلبی سے اس کوبے نیاز کردیاہے تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ اسلام پر جمے رہو ورنہ ہمارے اورتمہارے درمیان تلوار کاحکم ہے ۔‘‘ [2] ڈاکٹر صبحی محمصانی نےبھی یہی توجیہ بیان کی ہے، البتہ جواب کےآخر میں بیہقی سےیہ الفاظ زائد نقل کیےہیں : ’’ہم اسلام کےمعاوضے میں تمہیں کچھ نہ دیں گے، لہذا جوچاہےایمان لائے اورجوچاہے کافرہوجائے ۔‘‘ [3] مولانا محمد تقی امینی رحمہ اللہ نےعلامہ جصاص رحمہ اللہ کی کتاب ’’احکام القرآن‘‘کےحوالے سےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کایہ قول نقل کیاہے : ’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم كان يتألفكما والإسلام يومئذ قليل و إن اللّٰہ قد أغني الإسلام اذهبا فاجهدا جهدكما. ‘‘[4] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم دونوں کی اس وقت تالیف کیاکرتےتھے جب کہ اسلام کمزورتھا اورمسلمان تعداد میں کم تھے اب اللہ نےاسلام کوغنی کردیا ہےتم لوگ جاؤ اوراپنی مالی جدوجہد کرو۔‘‘ توجیہہ درست ،استدلال غلط ان حضرات نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےاستدلال کی توجیہات تودرست بیان کی ہیں، لیکن اس سے ان کایہ استدلال صحیح نہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےنصوص میں تبدیلی کی یاحکم کومنسوخ کردیا۔ اس لیے کہ یہ نسخ یاتبدیلی نہیں ہے۔ بلکہ علت کی عدم موجودگی میں حکم کے انتقاءکامسئلہ ہے۔ صاحب ’’مسلم الثبوت‘‘ نےسیدناعمر رضی اللہ عنہ کےاس اقدام سےمتعلق کہاہے: ’’ان من قبيل انتهاء الحكم لانتهاء العلة. ‘‘[5]
Flag Counter