Maktaba Wahhabi

70 - 114
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورسیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کےاس واقعہ میں بعینہ یہی کیفیت نظر آتی ہے۔ چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کےاستفسار پر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ صریحاً اس امر کااظہار کرتےہیں وہ کسی حلال وجائز معاملے کوحرام نہیں ٹھہرار ہے بلکہ بعض متوقع نقصانات (جن کاواقع ہوناظن غالب پر مبنی ہے )کاتذکرہ کرتےہیں۔ پھر کسی روایت سےبھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےایساکوئی عمومی حکم پوری سلطنت میں جاری فرمایا ہوکہ آج کےبعد کتابیہ عورت سےنکاح پرپابندی ہے۔ اس کی حیثیت محض ایک مشورہ ہی کی تھی، جوآپ نےان تمام لوگوں کودیا جوکہ کتابیہ عورتوں سےنکاح کرچکے تھے ۔ یہاں اس امرکاتذکرہ بھی مناسب رہےگا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےمشورہ کو مناسب سمجھتے ہوئے کچھ عرصہ بعد اپنی کتابیہ بیوی کوطلاق دے دی تھی۔امام ابن قدامۃ رحمہ اللہ (متوفیٰ 620ھ) لکھتے ہیں: ’’أنَّ عُمَرَ قَالَ لِلَّذِينَ تَزَوَّجُوا مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ: طَلِّقُوهُنَّ. فَطَلَّقُوهُنَّ إلَّا حُذَيْفَةَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: طَلِّقْهَا. قَالَ: تَشْهَدُ أَنَّهَا حَرَامٌ؟ قَالَ: هِيَ جَمْرَةٌ، طَلِّقْهَا. قَالَ: تَشْهَدُ أَنَّهَا حَرَامٌ؟ قَالَ: هِيَ جَمْرَةٌ. قَالَ: قَدْ عَلِمْت أَنَّهَا جَمْرَةٌ، وَلَكِنَّهَا لِي حَلَالٌ. فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ طَلَّقَهَا، فَقِيلَ لَهُ: أَلَا طَلَّقْتهَا حِينَ أَمَرَك عُمَرُ؟ قَالَ: كَرِهْت أَنْ يَرَى النَّاسُ أَنِّي رَكِبْت أَمْرًا لَا يَنْبَغِي لِي. ‘‘[1] ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےکتابیہ عورتوں سےنکاح کرنےوالوں کوحکم دیا کہ ان عورتوں کوطلاق دےدی جائے توسوائے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کےسب نےطلاق دےدی۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نےجواب دیا:’’کیاآپ اس کےحرام ہونے کی گواہی دیتےہیں ؟‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا :’’وہ مکار ہ ہے، اسے طلاق دے دیں۔‘‘ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نےدوبارہ (زوردے کر)فرمایا :’’کیا آپ اس کےحرام ہونےکی گواہی دیتے ہیں ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےپھر وہی جواب دیا کہ ’’وہ مکار ہ ہے‘‘سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے:’’یہ تو میں جانتا ہوں کہ وہ مکارہ ہےتاہم وہ میرے لیےحلال ہے۔‘‘(بات ختم ہوگئی )لیکن کچھ عرصہ بعد سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نےازخود اسےطلاق دےدی۔ لوگوں نےپوچھا :’’آپ نےیہ طلاق اس وقت کیوں نہ دی، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےآپ کوحکم دیا تھا ؟‘‘ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’میں اسے براسمجھتا ہوں کہ لوگ مجھے وہ کام کرتادیکھیں جومیرے لائق نہ تھا۔‘‘ اس واقعہ سےیہ حقیقت نکھر کرسامنے آتی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش اوررجحان یہی تھا کہ کتابیہ عورتوں کو نکاح میں نہ رکھا جائے۔ جبکہ انہوں نےاسے قانون کی حیثیت سےجاری نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی رائے پر اصرار کےباوجود انہوں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کوان کاموقف بدلنے پر مجبور نہیں کیا۔ البتہ بعد میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نےان کےمشورے کی معقولیت اورحکمت کےپیش نظر اپنی کتابیہ بیوی کوطلاق دے دی۔ اس سےیہ نکتہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ کسی حاکم کوشرعی حکم میں تبدیلی کااختیار حاصل نہیں ہے اورنہ ہی سیدنا
Flag Counter