المسلمين. [1] ’’میں ڈرتا ہوں کہ دوسرے مسلمان تمہاری اقتداکریں گے اورذمیہ عورتوں کےحسن وجمال کی وجہ سےمسلمان عورتوں پر ان کو ترجیح دیں گے۔ یہ بات مسلمان عورتوں کو فتنے میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۔‘‘ ظاہر ہےکہ یہ بھی ایک بڑی ٹھوس وجہ ہے کتابیہ عورتوں سےشادی کوروکنے کی۔ اگر ایسا ہوکہ مسلمان خواتین گھروں میں بیٹھی رہیں اورا ن کی بجائے یہودی یاعیسائی عورتوں سےنکاح کارجحان شروع ہوجائے توان مسلمان عورتوں کی کیا حالت ہوگی اوراس کےکیاکچھ مفاسد رونما ہوں گے، ارباب نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےاس حکمت کےپیش نظرسیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کوایسا کرنےسےروک دیا۔ 3۔ملی مفادات متاثر ہونےکاخدشہ یہ امر بھی خارج ازامکان قرار نہیں دیاجاسکتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےذہن میں یہ خدشہ موجود ہوکہ اگرکتابیہ عورتوں سےنکاح کیاگیا تو وہ ملت دشمن غیرمسلم عناصر کی آلہ کاربن کرجاسوسی کےذریعے ملت اسلامیہ کےمفادات کو زک پہنچا سکتی ہیں۔ خصوصاً جب معاملہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کا ہو، جومسلمانوں میں ایک ذمہ دار شخص کی حیثیت کےحامل تھے۔ 4۔کتابیہ عورتوں کامکروفریب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ بھی سمجھتےتھے کہ کتابیہ عورتیں زیادہ ترمکاراورفریبی ہیں، لہٰذا ان سےنکاح کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔ چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کےاستفسار پر انہوں نےفرمایا کہ ’’وہ مکار ہ ہے۔‘‘ [2] ممانعت ،پابندی یامشورہ ،ایک اہم نکتہ اس مقام پرفکر وذہن کو ایک اہم نکتہ کی جانب ملتفت کرنابھی ضروری ہےاوروہ یہ کہ آیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاسیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کوکتابیہ عورت سےعلیحدہ ہونے کاکہنا ،ممانعت اورپابندی تھی یایہ محض ایک مشورہ ؟ معاملے کی نوعیت پر غور کرنےسے یہ توجیہ زیادہ معقول ومحکم معلوم ہوتی ہے کہ یہ محض ایک مشورہ تھا بالکل اسی طرح کامشورہ جیسے ایک جہاندیدہ اورتجربہ کارشخص اپنے کسی عزیز کوایک معاملے سےمتعلق اپنےعلم وتجربہ کی روشنی میں مشورہ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک جائزکام سے کسی نقصان یاضرر کااندیشہ ہوتو اس سےباز رہنے کامشورہ دیاجاتاہے۔ اس سے یہ مقصود نہیں ہوتا کہ وہ شے فی نفسہ حرام یاممنوع ہے۔ |