Maktaba Wahhabi

67 - 114
اختیار کردہ بعض صورتوں کاتذکرہ کرتےہوئے سب سےپہلے اس اقدام کاذکر کیاہے : ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےکتابیہ عورت سےنکاح کرنےکی ممانعت کردی حالانکہ قرآن حکیم میں اس کی اجازت موجود ہے۔‘‘ [1] مولانا شاہ محمد جعفر صاحب پھلواروی رحمہ اللہ اس کاتذکرہ کرتےہوئے لکھتےہیں : ’’زن کتابیہ سےازروئے قرآن نکاح جائز ہے۔ لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےاس سےاہل اسلام کوروک دیااورسیدنا علی رضی اللہ عنہ نےبھی اپنے دورمیں یہی کیا۔‘‘ [2] غلام احمد صاحب پرویز نے عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم وعہد صدیقی رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کےاختلافی فیصلوں کےذیل میں لکھا ہے: ’’قرآن کریم نےمسلمانوں کےلیے اہل کتاب کی عورتوں سےنکاح کرناوران کاکھانا کھانا حلال قراردیاہے لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےان کی عورتوں سےیہ کہہ کرنکاح ممنوع قرار دےدیا ہےکہ یہ عورتیں مسلمانوں کےمعاشرہ میں فتنہ کاباعث بن جاتی ہیں۔‘‘ [3] حاصل یہ ہےکہ ایک قرآنی حکم کوحالات وظروف کی تبدیلی سےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےبدل دیا۔ تجزیہ استدلال اس سلسلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاجوواقعہ بیان کیاجاتاہے اگر اس پر تدبر کی نگاہ ڈالی جائےتومعاملے کی اصل حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ مولانا تقی امینی رحمہ اللہ نےبھی وہ واقعہ امام جصاص رحمہ اللہ (متوفیٰ 370ھ) کےحوالے سے نقل کیاہے۔امام الجصاص رحمہ اللہ لکھتےہیں : ’’تزوج حذيفة يهودية فكتب إليه عمر أن خل سبيلها فكتب إليه حذيفة: أ حرام هي؟ فكتب إليه عمر: لا ولكني أخاف أن تواقعوا المومسات منهن. ‘‘[4] ’’سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نےایک یہودی خاتون سےشادی کرلی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےلکھ بھیجا کہ اس سےعلیحدگی اختیار کرلو۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نےجوابی خط لکھ کرپوچھا کہ کیایہ حرام ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےاس کےجواب میں یہ مکتوب ارسال کیاکہ میں حرام تونہیں کہتا لیکن مجھےاندیشہ ہے کہ تم بدکار عورتوں کےجال میں پھنس جاؤ گے۔‘‘
Flag Counter