نقل کیے ہیں ۔‘‘ [1]ڈاکٹر صبحی محمصانی رحمہ اللہ نےعظیم محدث علامہ احمدشاکر رحمہ اللہ (متوفیٰ 1371ھ) کےحوالے سےبیان کیاہے کہ انہوں نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےاس فیصلے پر تبصرہ کرتےہوئے کہا ہےکہ یہ فعل ایک ہنگامی حکم کی حیثیت رکھتا ہےجوامام وقت (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ )نےبضرورت سیاست کیاتھا۔علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نےلکھاہے: ’’جواحکام قرآن یاسنت کی نص صریح سےثابت ہیں۔ انہیں نہ کسی کوتبدیل کرنےکاحق ہے اورنہ کوئی ان احکام کےعلاوہ کسی دوسرے حکم کواختیار کرنےکامجاز ہےخواہ ایک شخص ہویاپوری جماعت۔‘‘ [2] حاصل کلام یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےکسی شرعی حکم میں تبدیلی نہیں کی بلکہ ایک غیرشرعی کام (بیک وقت تین طلاقیں دینے) سےروکنے کےلیےبطور سزا لوگوں کورجوع کرنےسےروک دیا۔ البتہ معلوم ہوتاہے کہ بعد ازاں انہیں یہ احساس ہواکہ انہیں بطور سزابھی یہ اقدام نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ندامت علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےحوالے سےنقل کیاہے کہ انہوں نےفرمایا : ’’ماندمت علي شي ندامتي علي ثلاث أن لا أكون حرمت الطلاق. ‘‘[3] ’’مجھے تین باتوں پر شدید ندامت ہوئی (جن سےپہلے پہلا یہی طلاق والا مسئلہ ہے)کاش کہ میں طلاق (رجعی) کوحرام نہ کرتا۔‘‘ واضح رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےمذکورہ اقدام کی یہ توجیہ اس پہلو کوسامنے رکھتے ہوئےکی گئی ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں اصلاً شرعا ًرجعی ہیں، جیساکہ اہل علم کی ایک معتدبہ تعداد اس کی قائل ہے۔ البتہ جمہور علماء کانقطہ نگاہ یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں بھی تین شمارہوں گی اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ نےسرے سےکوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ پہلے ہی سےیہ حکم تھا۔ ان کےنزدیک سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث جومسلم میں مروی ہے،درجہ صحت کونہیں پہنچتی۔ اس اختلاف سےقطع نظردونوں فریق اس امر پر متفق ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےکسی شرعی حکم کونہیں بدلا اورنہ انہیں ایساکرنےکااختیار حاصل تھا ۔واللہ اعلم ۔ چوتھامسئلہ :کتابیہ سےنکاح پر پابندی مولانا محمدتقی امینی رحمہ اللہ نےاحکام میں حالات کی رعایت سےتوسیعی پروگرام کےتحت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی |