Maktaba Wahhabi

65 - 114
کیوں جاری نہ کیا، پس یہ حکم شرعی نہیں بلکہ قانونی حیثیت رکھتاہے کہ لوگ ڈرجائیں کہ اگر اب ہم نےایساکیا توبیوی نکاح سےباہر ہوجائےگی جب تک وہ دوسرے سےنکاح نہ کرے۔ اورنکاح بھی باقاعدہ رغبت کےساتھ دوام کےلیے ہو، نہ یہ کہ حلال کرکے چھوڑدے کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حلالہ کےسخت ترین مخالف تھے۔ سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کو خیال یہ ہواکہ پہلےلوگوں کےلائق جوتھا اس سے اس وقت کےلوگ محروم کردیئے جانےکےقابل ہوگئے ہیں۔ وہ اس طرح پےدرپے طلاقیں نہیں دیتے تھے۔ طلاق کےمعاملے میں طریقہ طلاق کوملحوظ رکھتےتھے۔ اللہ سےڈرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نےبھی ان کےساتھ آسانی کررکھی تھی۔ اب جبکہ یہی چیز برابرہونے لگی توکیاانہیں اس انعام الہی سےمحروم نہ کردیں تاکہ ان کےدماغ اوران کےفعل پھر درست ہوجائیں۔ پس یہ فتویٰ گویا ایک درہ فاروقی تھا جو کہ ان کی سزا کےلیے تھا نہ یہ کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےحکم شرعی بدل دیا۔‘‘ مشروع طلاق ایک کےبعد ایک ہے، نہ کہ سب ایک ساتھ، جوایسا کرتاہے وہ حد سےگزر جاتاہے، اپنے نفس پر ظلم کرتا ہےاوراحکام الہیٰ کےساتھ کھیل کرتاہے، پس وہ اس قابل ہوگیا کہ حاکم وقت بطور سزادہی کےاس پر کوئی سختی کردے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سےکھیلتا ہے توکیوں نہ رخصت الہیٰ سےمحروم کردیاجائے تاکہ اس کی آنکھیں کھل جائیں، پس یہ تواسی قبیل سےہے کہ زمانے کےبدلنے سے حکم بھی بدل جاتا ہے۔ اس حکمت کومدنظر رکھ کر صحابہ نےبھی سیاست فاروقی کاساتھ دیا اورایسےفتوے دینے شروع کر دئیے۔ [1] اس کےعلاوہ بھی کئی ارباب فقہ نے اس امرکی صراحت کی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کایہ اقدام تہدید وسیاست پر مبنی تھا ۔امام طحطاویرحمہ اللہ(متوفیٰ 1231ھ)’’درمختار‘‘کےحاشیے میں علامہ قہستانی رحمہ اللہ(متوفیٰ 313ھ) کےحوالے سےلکھتےہیں : ’’إن كان في الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلي زمن عمر، ثم حكم بوقوع الثلاث سياسة لكثرته من الناس. ‘‘[2] ’’صدر اول میں جب تین طلاقیں اکٹھی دی جاتی تھیں تو ایک ہی کے واقع ہونے کا حکم لگایا جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےعہد تک یہی طریق کار تھا، پھر جب لوگوں نےکثرت سے ایسا کرنا شروع کر دیا۔توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےازروئے سیاست تینوں کےواقع ہونےکافیصلہ نافذ کردیا۔‘‘ علامہ محمد بن علی المعروف باعلاءالحصکفی رحمہ اللہ(متوفیٰ 1677ھ) نےبھی علامہ قہستانیرحمہ اللہ سےیہی الفاظ
Flag Counter