طلاقوں کوتین ہی شمار کرنےکانفاذ کردیا جائے تاکہ اس سخت اقدام سےلوگوں کو کچھ تنبیہ ہواورکثرت سےبیک وقت تین طلاق دینےکےرجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس سےیہ بھی مقصود تھا کہ شریعت کےاحکام کی نافرمانی اوربےحرمتی سےلوگوں کوروکا جائے۔ یہ فیصلہ فاروقی رضی اللہ عنہ تہدیدی اورسیاسی نوعیت کاتھا یہ تھے وہ اسباب ووجوہ اورمصالح جن کی بناءپرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےیہ تہدیدی وسیاسی آرڈیننس جاری کیا کہ اب جوشخص بیک وقت تین طلاقیں دےگا۔ اسے رجوع کاحق حاصل نہیں رہےگا بلکہ انہیں تین ہی شمار کیاجائے گا۔ یہ تمام ترصورتحال صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکے سامنےتھی اس لیے انہوں نےبالعموم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےاس سیاسی وتہدیدی اقدام پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’رأی أمير المؤمنين عمر رضي اللّٰہ عنه أن الناس قد استهانوا بأمر الطلاق، وكثر منهم إيقاعه جملة واحدة، فرأي من المصلحة عقوبتهم بإمضائه عليهم، ليعلموا أن أحدهم إذا أوقعه جملة بانت منه المرأة وحرمت عليه حتي تنكح زوجا غيره نكاح رغبة يراد للدوام لا نكاح تحليل، فإنه كان من أشد الناس فيه، فإذا علموا ذلك كفوا عن الطلاق المحرم، فرأى عمر أن هذا مصلحة لهم في زمانه، ورأى أن ما كانوا عليه في عهد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعهد الصديق، وصدرا من خلافته كان الأليق بهم، لأنهم لم يتتابعوا فيه وكانوا إن يتقون اللّٰہ في الطلاق، وقد جعل اللّٰہ لكل من اتقاء مخرجا، فلما تركوا تقوي اللّٰہ وتلاعبوا بكتاب اللّٰہ وطلقوا علي غير ما شرعه اللّٰہ ألزمهم بما التزموه عقوبه لهم، فإن اللّٰہ تعالي إنما شرع الطلاق مرة بعد مرة ولم يشرع كله مرة واحدة، فمن جمع الثلاث في مرة واحدة فقد تعدي حدود اللّٰہ وظلم نفسه ولعب بكتاب اللّٰہ ، فهوحقيق أن يعاقب، ويلزم بما التزمه، ولا يقر علي رخصة اللّٰہ وسعته، وقد صعبها علي نفسه، ولم يتق اللّٰہ ولم يطلق كما أمره اللّٰہ وشرعه له، بل استعجل فيما جعل اللّٰہ له الأناة فيه رحمة منه إحسانا، ولبس علي نفسه، واختار الأغلظ والأشد فهذا مما تغيرت به الفتوي لتغير الزمان، وعلم الصحابة رضي اللّٰہ عنهم حسن سياسة عمر وتأديبه لرعيته في ذلك فوافقوه علي ما ألزم به. ‘‘[1] ’’علامہ محمد صاحب جوناگڑھیرحمہ اللہ (متوفیٰ 1941ء) نے مندرجہ بلاعبارت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے : ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےجوکچھ کیاوہ ایک مصلحت وقت کی اقتضاء کاکام تھا، نہ کہ شرعی مسئلہ، ایک کام جومنع تھا، جوخلاف سنت تھا، لیکن اگر کسی سےہوجائے توشریعت اسےپکڑتی نہ تھی۔ جب لوگوں نےبکثرت بےخوف ہوکر اسے كرنا شروع کردیا توآپ نےبحیثیت قانون یہ حکم فرمایا کہ میں آئندہ سےتین کوتین ہی گن لوں گا۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ لوگ ایک ساتھ تین طلاقیں دینےسےباز رہ جائیں ،ورنہ پھر تین سال تک یہ حکم شرعی |