((أبغض الحلال إلي اللّٰہ تعالىٰ الطلاق.)) [1] ’’حلال امورمیں سےاللہ کےنزدیک ناپسندید ہ ترین طلاق ہے ۔‘‘ بیک وقت تین طلاق حرام ہیں علاوہ ازیں اکٹھی تین طلاقیں دیناحرام اورناجائز ہے۔ شریعت کی روسےیہ سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ ایک طرف یہ نص قرآنی ﴿الطلاق مرتٰن﴾[2] ’’طلاق دومرتبہ ہے‘‘کےخلاف ہےتودوسری جانب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ((تلعب بکتاب اللّٰہ ))كتاب الله كے ساتھ کھیل قراردیاہے ۔ سنن نسائی میں ہے کہ ایک شخص نےاپنی بیوی کوتین طلاقیں دےڈالیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غضبناک ہوئےاورفرمایا: ((أیلعب بکتاب اللّٰہ وأنا بين أظهركم.)) [3] ’’کیامیری موجودگی میں اللہ کی کتاب کےساتھ تلعب (کھیل)کیاجارہاہے ۔‘‘ اس فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیش نظر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اکٹھی تین طلاقوں کوسخت مکروہ گردانتےتھے ۔جس شخص کےمتعلق انہیں یہ پتہ چلتا کہ اس نےبیک وقت تین طلاقیں دی ہیں تواس کی پشت پردرے لگاتے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 852ھ ) نےلکھا ہے: ’’ان عمر كان إذا أتي برجل طلق امرأته ثلاثا أوجع ظهره. ‘‘[4] ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےپاس جب کسی ایسےشخص کولایاجاتا ،جس نےاپنی بیوی کوتین طلاقیں دی ہوتیں توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کی پیٹھ پر کوڑے برساتے ۔‘‘ اس کےباوجود جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےدیکھا کہ لوگ طلاق کےمسئلہ میں اس احتیاط وتدبر سےکام نہیں لیتے جوشریعت نےبتلایا ہےکہ حالت طہر میں ایک ہی طلاق دی جائے بلکہ بیک وقت تین طلاقیں کثرت سےدینے لگے ہیں جوشرعی احکام کی صریح خلاف ورزی ہےتوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ تین |