﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ [1] ’’پس جوشخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کامیلان نہ ہوتو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کرنےوالا اوربہت بڑا مہربان ہے۔‘‘ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےقرآن کےقانون اضطرار اوردیگر تعلیمات کےپیش نظرچوروں کےہاتھ کاٹنے سے پرہیز فرمایا۔علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ (متوفی 751ھ)نےلکھا ہے: ’’فإن السنة إذا كانت سنة مجاعة وشدة غلب على الناس الحاجة والضرورة فلا يكاد يسلم السارق من ضرورة تدعوه إلي ما يسد به رمقه. ‘‘[2] ’’قحط کےزمانے میں فقروفاقہ کی شدت عام آدمیوں کو اتنا مجبور اورضرورت مندبنادیتی ہے کہ چور کےلیے بھی یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ سدرمق کےلیے چوری سےمحفوظ رہ سکے۔‘‘ شبہ سےحدساقط ہوجاتی ہے پھر جیسا کہ پہلے بیان ہوا، حدیث کی روسےاگر شبہ پایا جائے توحدنہیں لگائی جائےگی۔ اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےزمانےمیں قحط کی صورتحال ایک قوی شبہ تھی کہ چرانےوالے نےبھوک سےمجبور ہوکر چوری کی ہے، ورنہ عام حالات میں شایدوہ چوری نہ کرتا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ کےبقول : یہ شبہ انتہائی قوی ہے لہذا محتاج کاہاتھ نہ کاٹاجائے گا۔ فقہاءنےجودیگر شبہات پیش کئے ہیں ،یہ ان سب سے زیادہ قوی ہے ۔[3] انہوں نےمزید لکھا ہے: ’’هو مأذون له في مغالبة صاحب المال علي أخذ ما يسد رمقه، وعام المجاعة يكثر فيه المحاويج والمضطرون، ولا يتميز المستغني منهم والسارق لغير حاجة من غيره، فاشتبه من يجب عليه الحد بمن لا يجب عليه، فدري، نعم إذا بان أن السارق لا حاجة به وهومستغن عن السرقة قطع. ‘‘[4] ’’چور کوڈھیل صرف ان دولت مندوں کےمقابلہ میں دی گئی ہے کہ وہ اس طرح ان کامال لےکر اپنے جسم وجان کےرشتہ کوقائم رکھ سکے۔ قحط کےزمانے میں ضرورت مندوں ، بھوکوں اورمجبوروں کی کثرت ہوتی ہے اوران حالات میں یہ تمیز کرناسخت مشکل ہوتاہے کہ کون مستغنی ہونےکی بنا پر مستوجب حد ہے اورکون |