وہاں موجود ہوتے تھےاورفرماتے تھے کہ انسان آدھی غذا سےہلاک نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی ایک آدمی کاکھانا دو آدمیوں کےلیے کافی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےمطابق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے : ((طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ.)) [1] ’’ایک فرد کاکھانا دوکےلیے کافی ہے،دوکاچار کےلیے اورچار کاکھانا آٹھ افراد کےلیے کفایت کرتاہے ۔‘‘ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (متوفی795ھ) کےمطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کایہ اقدام اسی حدیث نبوی سےماخوذ ہے۔ [2] 3۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےلوگوں پر تخفیف کرتےہوئے قحط کےسال زکوۃ وصول نہیں کی کہ لوگوں کےپاس پہلے ہی کھانے کےلیے کچھ نہ تھا ، زکوۃ کیسے دیتے۔ امام بغوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 516ھ) لکھتےہیں : ’’أن عمر أخر الصدقة عام الرمادة، فلما أحيا الناس في العام المقبل، أخذ منهم صدقة عامين. ‘‘ [3] ْ’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے’’عام الرمادۃ‘‘ میں زکوۃ مؤخر کردی ،پھر جب آئندہ برس لوگوں کی حالت بہتر ہوئی توان سے دوسال کی زکوۃ وصو ل کی ۔‘‘ 4۔ خودسیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کےلوگوں میں راشن تقسیم کرتے اوراپنی نگرانی میں بھوکوں کوکھانا کھلاتے۔ مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ (متوفیٰ1914م) نے لکھا ہے: ’’ہرروز بیس اونٹ ذبح کرکے پکواتے اورلوگوں کوکھلاتے ۔‘‘ [4] ’حدسرقہ‘کاموقوف کرنا یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےچوری کی سزا ’قطع ید‘پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ اورایسی صورتحال میں یہ اقدام قرآنی تعلیمات اوراسؤہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےعین مطابق تھا۔ اس لیے کہ اس طرح کےحالات میں انسان مجبور ومضطر ہوجاتاہے اورقرآن میں یہ اجازت دی گئی ہےکہ حالت اضطرار میں حرام اشیاء بھی کھائی جاسکتی ہیں۔ ارشاد ربانی ہے : |