تیسرانکتہ :حدسرقہ سےمتعلق اقدام فاروقی کاپس منظر مندرجہ بالاامور ذہن میں رکھتے ہوئے اب ایک نظر ان حالات پر بھی ڈال لینی چاہیے جن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےچورکاہاتھ کاٹنے کی سزا پر عملدرآمد روک دیاتھا ۔جیسا کہ پہلے بیان ہوا عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں سن 18؍ہجری میں ایک انتہائی آفرین قحط بپا ہواتھاجس سال قحط پڑا اسے’’عام الرمادۃ‘‘ کہاجاتاہے ۔اس قحط نےپورے جزیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا اوراس کاسلسلہ تقریباً نوماہ تک جاری رہا۔ ’عام الرمادۃ ‘کی وجہ تسمیہ اس قحط کی ہلاکت خیزی ہی کی بناءپر اس کانام ’’عام الرمادة‘‘رکھا گیا ،جس سال میں یہ قحط بپا ہواتھا۔ ’’الرمادة‘‘رمد سےنکلاہے،جس کی معنی ہلاک کرنےکےہیں ۔راکھ کو’’الرمادة‘‘ کہاجاتاہے ۔ علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ (متوفیٰ 630ھ) نےلکھا ہے: ’’وقيل سمي به لانهم لما اجدبوا صارت الوانهم كلون الرماد. ‘‘[1] ’’کہاجاتاہےکہ اس سال کانام ’’عام الرمادة‘‘اس لیےرکھا گیاہے جب لوگ قحط کی زد میں آئے توان کےرنگ راکھ کی مانند ہوگئے ۔‘‘ علامہ عینی رحمہ اللہ (متوفیٰ 855ھ) اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں: ’’سمي العام بها لما حصل من شدة الجدب فاغبرت الأرض من عدم المطر. ‘‘[2] ’’اس سال کانام ’’عام الرمادة‘‘رکھنےکی وجہ یہ ہے کہ جب قحط اورخشک شالی کی شدت ہوئی توزمین میں ہرطرف گردوغبار اورخاک اڑنے لگی کیونکہ بارش نہیں ہورہی تھی ۔‘‘ امام ابوعبیدالھروی رحمہ اللہ (متوفیٰ 838ھ)’’عام الرمادة‘‘کی وجہ تسمیہ یوں بیان کرتےہیں: ’’إنما سمي الرمادة لان الزرع والشجر والنخل وكل شئ من النبات احترق مما اصابته السنة فشبه سواد بالرماد. ‘‘[3] ’’اس برس کو ’’الرمادة‘‘اس لیے کہاگیا ہے کہ کھیت ،درخت ،باغات غرضیکہ زمین سےاگنے والی ہرشےقحط کی |