بناء پر جل کر رہ گئی تھی لہٰذا اس کی سیاہی کوراکھ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔‘‘ زمانہ قحط میں لوگوں کی حالت اس قحط نےلوگوں پر کیاقیامت ڈھائی ،اس کاتذکرہ کرتےہوئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نےلکھا ہے: ’’كان عام الرمادة في آخر سنة سبع عشرة وأول سنة ثماني عشرة، أصاب أهل المدينة وما حولها جوع فهلك كثير من الناس، حتي جعلت الوحش تاوي الي الانس. ‘‘[1] ’’عام الرمادة 17ہجری سےآخراور18ھ کےآغاز میں تھا اس زمانے میں اہل مدینہ اوراردگرد کےلوگ قحط کی زد میں آئے جس کی شدت سےبہت سےلوگ لقمہ اجل بن گئے۔ اس کی سنگینی کاعالم یہ تھا کہ وحشی درندے بھی گھبراکرانسانوں کےپاس پناہ لیتےتھے ۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کیفیت جولوگ رزق خاک بننے سےبچ گئے ،ان کےرنگ بھوک کی شدت سےسیاہ پڑگئے تھے۔خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےبھی ایثار کامظاہرہ کیااورگوشت گھی دودھ وغیرہ چھوڑدیا ۔اس سےآپ کارنگ بھی کالا ہوگیا۔ امام ابن ہبۃ اللہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 571ھ) نےلکھا ہے: ’’وكان عمر بن الخطاب شديد البياض وكان ياكل السمن واللبن فلما امحل الناس حرمهما علي نفسه عام الردماة قال واللّٰہ لا اكلهما حتي يخصب الناس وكان ياكل الزيت حتي تغير لونه. ‘‘[2] ’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رنگت انتہائی سفید تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ گھی اوردودھ استعمال کرتےتھے لیکن جب لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے تو’’عام الرمادة‘‘میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےان دونوں چیزوں کواپنے اوپرحرام کر لیا اور فرمایا: میں اس وقت تک دودھ اورمکھن نہیں کھاؤں گا جب تک لوگ خوشحال نہیں ہوجاتے اوران میں اشیا ئے خورد ونوش کی ارزانی نہیں ہوجاتی ۔اس کےبعد انہوں نےروغن زیتون کھانا شروع کردیا یہاں تک کہ ان کی رنگت تبدیل ہوگئی۔‘‘ امام فسوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 890ھ) نے ’’المعرفة التاریخ ‘‘میں تحریر کیاہے : ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انتہائی سرخ وسپید تھے لیکن زمانہ قحط میں انہوں نےگوشت اورگھی چھوڑکرزیتون کاتیل استعمال |