Maktaba Wahhabi

54 - 114
لیکن یہ حدیث مرفوعا ً ثابت نہیں ہے۔ امام زیلعی رحمہ اللہ (متوفیٰ 762ھ) نے ان الفاظ کےساتھ اسے غریب قرار دیاہے ۔ [1] تاہم اس سے جواصول اخذکیا جاتا ہےکہ شبہات کی بناء پر حدود ساقط ہوجاتی ہیں ، وہ بہرآئینہ درست ہےکہ دیگر صحیح دلائل اس کےمؤید ہیں جیسا کہ اوپر بیان کردہ صحیح حدیث میں ہے مذکورہ حدیث تمام حدود کےلیےمخصص کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی حدیث کےپیش نظر علماء کااس امر پر اتفاق ہے کہ شبہ موجود ہوتو حدنہیں لگائی جائے گی۔ البتہ شبہ سےمراد کیاہے اس باب میں ان کی آراء مختلف ہیں ۔ حاصل یہ ہے کہ چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے کاقرآنی حکم اپنے دامن میں عمومیت لئے ہوئے ہے، لیکن اس پرعمل کرتےہوئے دیگر دلائل وبراہین سے ثابت شدہ قیود وتخصیصات کوسامنے رکھنا ضروری ہے، جن میں سےایک اہم قید یہ ہےکہ بوقت شبہ اس حدکا اطلاق ونفاذ نہیں کیاجائے گا۔ دوسرانکتہ :اقامت حدود میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاطرز عمل حدود کےنفاذ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریق کاریہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں دوسروں کوشبہات کی بناء پر حدود کےنفاذ سےروکنے کی تلقین کرتےتھے بلکہ خودبھی ایسی صورت حال میں حدنہیں لگاتے تھے اورحتی الامکان شبہ کافائدہ دےکرحدکومؤخر کرنےکی کوشش کرتےتھے۔ اسی طرح چوری کےسلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ توضیح وتبیین بھی فرمائی کہ معمولی قسم کی اشیاءیاکھانے پینےکی چیزیں چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ابوداؤد میں یہ واقعہ مرقوم ہے : ’’ایک غلام نےکسی باغ سےکھجور کےچھوٹے پودے چراکراپنے آقا کےباغ میں لگا دیئے۔ اصل مالک کو پتہ چلاتو وہ غلام کو پکڑ کر امیر مدینہ مروان کےپاس لےآیا۔ مروان نے اسےقید کرکےہاتھ کاٹنے کاارادہ کرلیا۔ غلام کامالک صحابی رسول سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کےپاس گیااوراس سے متعلق شرعی رہنمائی چاہی۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد سنایا : ((لا قطع فی ثمر ولا کثر))’’پھل اورکھجور کےشگوفےکی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا۔‘‘ اس نے عرض کیاکہ آپ مروان کےپاس جاکر یہی حدیث سنادیں ۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔چنانچہ مروان نے اس غلام کوچھوڑدیا۔‘‘ [2]
Flag Counter