Maktaba Wahhabi

53 - 114
’’چوری کرنےوالے مردوعورت کےہاتھ کاٹ دیاکرو یہ بدلہ ہے اس کاجوانہوں نےکیا۔‘‘ یہ فرمان نقل اورثبوت کےاعتبار سےتوقطعی اوریقینی ہے ،لیکن مفہوم ومراد کےپہلو سےاس میں کئی احتمالات موجود ہیں گویایہ قطعی الثبوت اورظنی الدلالۃ ہے، لہذا اس عام حکم کی تخصیص وتقیید ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند حرفیت پسندارباب فقہ کو چھوڑکراہل علم کی عظیم اکثریت اسی کی قائل ہے۔ مندرجہ بالاآیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین صاحب یوسف حفظہ اللہ تحریر کرتےہیں : ’’بعض ظاہری فقہاء کےنزدیک سرقے کایہ حکم عام ہے، چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح وہ حرز (محفوظ جگہ )میں رکھی ہویاغیر حرز میں۔ ہرصورت میں چوری کی سزادی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہاءاس کےلیے حرز اورنصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کی تعیین میں ان کےمابین اختلاف ہے۔ محدثین کےنزدیک نصاب ربع دینار یاتین درہم (یاان کےمساوی قیمت کی چیز )ہے۔ اس سےکم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائےگا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ (پہنچوں )سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یاکندھے سےنہیں۔ جیسا کہ بعض کاخیال ہے ۔‘‘ [1] واضح رہے کہ اس قرآنی حکم کی تخصیص وتقیید دیگر شرعی نصوص ہی کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مخصصات ومبنیات سےصرف نظر کرکےمحض ظاہر آیت کی بناء پر اس کامفہوم ومعنی متعین نہیں کیاجاسکتا۔ حدسرقہ سےمتعلق جزوی تفصیلات توبہت سی ہیں جوفقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن یہاں ایک اہم پہلو کےبارےمیں اشارہ ضروری ہے۔جس کاتعلق اگرچہ عمومی طورپر تمام ہی حدود سےہےلیکن مسئلہ زیر بحث میں وہ بہت اہم ہے۔ اس سےمقصود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد ہے: ((ادراوا الحدود عن المسليمن ما استتطعتم فان كان له مخرج فخلوا سبيله فان الامام ان يخطئ في العفو خير من ان يخطئ في العقوبة.)) [2] ’’جہاں تک ممکن ہومسلمانوں سےحدود کوہٹاؤ ،اگر کسی کےلیے کوئی گنجائش پاؤ تواس کی راہ چھوڑدو۔ حکمران کامعافی میں غلطی کرنا، سزادینے میں خطا سےبہتر ہے۔‘‘ اس سلسلہ میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے: ((ادراوا الحدود بالشبهات.))
Flag Counter