مولانا محمد تقی امینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’بھوک قحط کےعام ابتلاء میں قطع یدسے روک دیا جب کہ قرآن حکیم کی آیت ﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَيْدِيَهُمَا ﴾ [1] ’’چوری کرنےوالا مرد اورچوری کرنےوالی عورت ،ان کےہاتھ کاٹ دو۔‘‘عام ہے ،جس میں کسی خاص صورت کو مستثنی ٰ نہیں کیاگیا ۔‘‘ [2] مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ ،[3]مولانا شاہ محمد جعفر پھلواری رحمہ اللہ[4] نےبھی اس کاتذکرہ کیاہے ۔ تجزیہ استدلال یہ واقعہ تاریخ کی تقریبا تمام معتبر کتابوں میں موجود ہےکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےعہد خلافت میں ایک ہلاکت آفرین قحط بپا ہواتھا اورجناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےزمانہ قحط میں ’حدسرقہ ‘پر عملدرآمد روک دیاتھا ۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ (متوفىٰ 174ھ) کےحسب تصریح یہ قحط 18ہجری میں پڑاتھا۔ [5] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاچوری کی سزا یعنی قطع یدکے قرآنی حکم پر عملدرآمدکو روک دینے کاسبب اوروجہ کیاتھی؟ اورکیا اس سےیہ اصول اخذکیاجاسکتا ہے کہ حاکم وقت کو تبدیلی حالات کی بناء پر منصوص شرعی احکام میں تبدیلی کاحق حاصل ہے ،اس ضمن میں نکات ذیل پر غور کرناضروری ہے : ۳۔ قرآن کریم میں چوری کی سزا کےحکم کی نوعیت کیاہے ؟ ۴۔ اقامت حدودخصوصاً حدسرقہ کےباب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاطرز عمل کیاتھا ؟ ۵۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےیہ اقدام کن حالات میں اٹھایا تھا ؟ ان نکات کے تجزیہ وتحلیل سےمسئلہ کی اصل حقیقت واضح ہوجائے گی ۔ پہلانکتہ :قطع یدکے قرآنی حکم کی نوعیت چوری کی سزا سےمتعلق ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءً بِمَا كَسَبَا ﴾ [6] |