انہی قرآنی ہدایات کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےمختلف مواقع پر حسب مصلحت وضرورت مختلف طریق عمل اختیار فرمایا ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کااستدلال چنانچہ سوادعراق کی تقسیم کےموقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےبھی درحقیقت قرآن کی اسی آیت کو مدار استدلال بنایا،جس کےتحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاراضی کےمختلف انتظامات فرمائے تھے ۔چنانچہ ﴿كى لایکون دولة بین الأغنیاء منکم﴾ [1]سےاستدلال کرتے ہوئےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاکہنا تھا کہ ’’لوقسمتها بينهم لصارت دولة بين الاغنياء منكم ولم يكن لمن جاء بعدهم من المسلمين وقد جعل لهم فيها الحق بقوله والذين جاءوا من بعدهم. ‘‘[2] ’’اگر میں اس اراضی کواہل لشکر میں تقسیم کردوں تو یہ سرزمین چند دولت مندوں کی جاگیر ہوکرانہی میں گردش کرتی رہے گی اوربعد میں آنے والے مسلمانوں کواس میں سےکچھ بھی نہ ملے گاحالانکہ اللہ نےان کاحصہ بھی رکھا ہے ، چنانچہ فرمایا ہے کہ ’’اورجولوگ ان کےبعد آئیں ۔‘‘ اس سےظاہر ہوتاہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کااستدلال قرآنی ہدایات اوراسؤہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعین مطابق مصلحت پر مبنی تھا۔ چنانچہ اس لیے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی رائے سےاتفاق کیا اوراجماعی طورپر ان زمینوں کو تقسیم نہ کرنے کافیصلہ کیاگیا ۔ [3] لہٰذا اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےکسی منصوص حکم میں تبدیلی کی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مسئلہ سےمتعلق متعدد منصوص احکام میں سے ایک حکم کااطلاق کیاہے ۔ دوسرامسئلہ :قطع یدکی منسوخی سیدنا عمر کےجن اقدامات کومنصوص احکام میں تبدیلی کےجواز کے طو رپر پیش کیاجاتاہے ،ان میں سے ایک یہ بھی ہےکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےچوری کی سزا قطع یدمنسوخ کردی تھی۔ جناب غلام احمد صاحب پرویز عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم وعہد صدیقی رضی اللہ عنہ سےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اختلافی فیصلے گنواتے ہوئے چوتھے نمبر پر اس کاتذکرہ یوں کرتے ہیں : ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کےزمانے میں چوری کی سزا موقوف کردی ۔‘‘ [4] |