اس کاتذکرہ مولانا محمد حنیف صاحب ندوی رحمہ اللہ نے’’اجتہاد ‘‘میں[1] اورمولانا محمدتقی صاحب امینیرحمہ اللہ نے’’احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت ‘‘[2]میں بھی کیاہے ۔ تجزیہ استدلال اس سلسلہ میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیاعہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں مزروعہ زمینیں لازماًسپاہ میں تقسیم ہی کی جاتی تھیں یااس کے علاوہ بھی کوئی صورت موجودتھی ؟ زمینوں کی تقسیم متعین قانون نہیں ارباب علم ونظرکی رائے یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون متعین نہ تھا، جس کی روسےزمینیں لازمی طورپر مجاہدین میں تقسیم کی جاتی ہوں۔ بلکہ خودرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس باب میں متنوع طرز ہائے عمل اپنائے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاایسا کوئی حکم بھی موجودنہیں ،جس کی بناءپر ایسا کرنا ضروری قرار دیاگیا ہو۔مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1979ء) اسی نوعیت کےاستدلال کاجواب دیتے ہوئے لکھتےہیں : ’’نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ فیصلہ کبھی نہیں فرمایاتھا کہ مفتوحہ زمینیں ہمیشہ مجاہدین میں تقسیم کی جانی ہیں۔ اگر ایساکوئی حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےدیا ہوتا اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےاس کےخلاف عمل کیاہوتا توآپ کہہ سکتےتھے کہ انہوں نےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کافیصلہ بدل دیایاپھر یہ دعویٰ اس صورت میں کیاجاسکتا تھا جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےانہی زمینوں کو مجاہدین سےواپس لےلیاہوتا جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد میں تقسیم کیاتھا ،لیکن ان دونوں میں سےکوئی بات بھی پیش نہیں آئی۔ اصل صورت معاملہ یہ ہے کہ مفتوحہ زمینوں کولازما مجاہدین ہی میں تقسیم کردینا سرےسے کوئی اسلامی قانون تھاہی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےمفتوحہ اراضی کےمعاملے میں حسب موقع وضرورت مختلف مواقع پر مختلف فیصلے فرمائے تھے۔ بنی نضیر ،بنی قریظہ ،خبیر،فدک ،وادی القریٰ ،مکہ اورطائف کی مفتوحہ اراضی میں سےہر ایک کابندوبست ،عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں الگ الگ طریقوں سےکیاگیا تھا اورایسا کوئی ضابطہ نہیں بنایاگیا تھا کہ آئندہ ایسی اراضی (مفتوحہ )کابندوبست لازما فلاں طریقے یاطریقوں ہی پر کیا جائے۔ اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےمشورہ سے اراضی مفتوحہ کاجوبندوبست کیا، اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےفیصلوں میں رد وبدل کی مثا ل نہیں قرار دیا جاسکتا ۔‘‘ [3] |