Maktaba Wahhabi

46 - 114
مسائل، مسئلہ اجتہاد‘‘میں[1]، مولانا محمد تقی امینی رحمہ اللہ)متوفیٰ 1991ء) نے’’احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت ‘‘ اور’’اجتہاد ‘‘میں، [2]مولانا جعفر شاہ پھلواروی رحمہ اللہ نے’’اجتہادی مسائل‘‘ اور’’اسلام دین آسان‘‘ میں، [3]سید یعقوب شاہ)متوفیٰ 8619ء) نے ’’قوانین اسلامی کےنفاذ کامسئلہ ’’میں [4] اورغلام احمدپرویز (متوفیٰ 1985ء) نے’’شاہکار رسالت‘‘میں [5]میں سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کےان اقدامات کاتذکرہ کیاہے۔ ان کی اہمیت کےپیش نظر زیر نظر مقالہ میں ان کاتحلیل وتجزیہ پیش کیاجارہا ہے ۔اس ضمن میں صرف انہی چند مثالوں کوزیربحث لایا گیا ہے جن سے واقعتاً شرعی احکام میں تغیر کاتاثر ملتاہے ۔اس لیے کہ اولیات عمر رضی اللہ عنہ میں کئی امورایسے ہیں ،جوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نصوص شریعت کی عمومی تعلیمات کی روشنی میں جاری کیے اگرچہ شریعت میں صراحتاً ان کاذکر موجودنہ تھا۔ انہیں احکام میں تغیر وتبدل قرار نہیں دیاجاسکتا۔البتہ بعض معاملات ایسےہیں کہ پہلے ان سےمتعلق کوئی ہدایت موجود تھی لیکن آپ رضی اللہ عنہ نےاس سے ہٹ کرطریق عمل اپنایا۔یہی درحقیقت ان حضرات کامداراستدلال ہیں ۔لہٰذا ذیل میں انہی کاتجزیاتی مطالعہ پیش کیاجائے گا۔ پہلامسئلہ :عراق کی مفتوحہ زمینوں کوقومی ملکیت میں لینا غلام احمدپرویزصاحب تغیرحالات کےماتحت فیصلوں کی تبدیلی کی مثالیں بیان کرتےہوئے ’’اختلافی فیصلے‘‘ کےزیر عنوان لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورخلافت صدیقی رضی اللہ عنہ میں قانون یہ تھا کہ مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کردیاجاتاتھا۔ فتح عراق کےوقت مال غنیمت میں کثیر مزروعہ زمینیں بھی ملیں۔ سابقہ قاعدے کےمطابق ،مطالبہ ہواکہ انہیں بھی سپاہیوں میں تقسیم کردیاجائے لیکن سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہنےاس سےاختلاف کیااورکہا کہ ان زمینوں کی پیداوار پرساری امت اورآنےوالےنسلوں کی پرورش کادارومدار ہے اس لیے انہیں انفرادی ملکیت میں نہیں دیاجاسکتا۔ یہ اجتماعی ملکیت کی تحویل میں رہیں گی۔ کافی بحث وتمحیص کےبعد فیصلہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کابرقرار رہا۔ یہ سابقہ قانون سےبڑا اہم اختلاف تھا ۔‘‘ [6]
Flag Counter