Maktaba Wahhabi

113 - 114
لوگوں سے بڑھ کرنیکی کر تے تھے۔‘‘ [1] بحیثیت ماں عورت کا رُتبہ جان لینے کے بعداگر بحیثیت بہن دیکھیں تو اسی طرح عورت کا چوتھا روپ بھی بہت روشن ہے جس میں اس کے حقوق اور دلجوئی کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ مثلاًا للہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَاِنْ كَانُوْا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِي الثُّلُثِ ﴾ [2] ’’اور اگر ایسے مردیا عور ت کی میراث ہو،(جسکا نہ ہی باپ اور نہ ہی بیٹاہو)جس کی بہن یابھائی ہوں توان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔اورایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔‘‘ دینِ اسلام عورت کے لیے ہر رُوپ میں مکمل تحفظ لیے ہوئے ہے جبکہ ’’عصرِحاضر میں تو خاندان نے اپنی ادارتی حیثیت ہی کھو دی ہے۔ معاشی انفرادیت نے ہر شخص کو خود مختار بنا دیا ہے ۔یہی خودمختاری اجتماعی مفاد کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔‘‘ [3] عصرِ حاضر میں معاشرے کی شکل کافی بدل چکی ہے اس تبدیلی کے لیے بھی د ینِ اسلام کے علاوہ کسی نظامِ حیات میں اتنی لچک نہیں کہ وہ عورت کو عزت اور تحفظ اس کے جائز مطالبے کے مطابق یا مصلحتاً نرم شرائط پر فراہم کرسکے۔ مغرب میں روائتی نظام کے بگڑنے کے سنگین نتا ئج برآمد ہوئے ہیں، مثلاًشادی کے بغیر مل کے رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور طلاقوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بچوں پر نفسیاتی اور جذباتی لحاظ سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تنہا ماؤں میں اضافہ اور ہم جنس پرستی کے سربراہوں نے تو اب پادریوں کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ موجودہ متنازعہ حالات میں مغرب یا مشرق کی عورت اسلام کے جاری کردہ حقوق کے ہم پلہ حقوق کا مطالبہ اگرسیکولر ریاستوں سے کرے گی تو اسے مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہاں تک کہ وہ خود کو دائرہ اسلام میں داخل کرکے اسکی نافذ کردہ حدود میں داخل ہو کرسچے دل سے توبہ کر لے ۔تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے۔ اور اس لایعنی فریب سے بچ کر اپنے حقوق حاصل کر تے ہوئے دنیاوآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
Flag Counter