’’اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہوان سے نکاح مت کرنا مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہو چکا سو ہو چکا ، یہ نہایت بے جا اور خدا کی نا خوشی کی بات تھی اور بہت بُرا دستور تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایک اور فرسودہ رسم کا خاتمہ اس آیت کے نزول سے کر دیا کہ جو بیٹے اپنے باپ کی بیوہ میں رغبت رکھتے اور عورت کاتقدس پامال کرتے تھے ان مردوں کو اس حرکت سے روک کر عورت کی عزت و عافیت میں اضافہ کیا ہے اور اپنی رحمتوں کے حصول اور نا فرمانی پر سزا میں مردوں اور عورتوں میں برابری کا اصول قائم کر دیا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَ مَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ [1] ’’خدا نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے بہشتوں کا وعدہ کیا ہے ۔جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے پاکیزہ ٹھکانے جنت کے باغات ہونگے اور اللہ کی رضا تو سب سے بڑھ کر ہے۔اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ وَ يَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا﴾ [2] ’’تاکہ خد ا منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مرد وں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور خدا مومن مردوں اور مومن عورتوں پر مہربانی کرے اور خداتو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنے زیرِنگرانی لوگوں کے بارے مسؤل ہے ،حکمران نگران ہے، ایک آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے ۔عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے ۔‘‘ [3] مندرجہ بالا آیات وا حادیث سے عورت کی حقیقی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی نظرمیں وہ کوئی بے کار شے نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ دار اور نگران ہستی ہے۔ اس کی ذمہ داریاں بھی ویسی ہی اہم ہیں جیسے معاشرے کے باقی لوگوں کی ،لہٰذاا س کا مقام بھی ویسا ہی اہم ہو گا جیسے معاشرے کے باقی معزز ممبران کا سمجھا جاتا ہے۔ نیک مرد |