Maktaba Wahhabi

109 - 114
حملوں میں شمولیت کرنا) زنابالجبر،اجتماعی زیادتیاں،اغوا،انسانی سمگلنگ،قتلِ عام،ا ولڈایج سنٹرز کا قیام اور نائٹ کلب وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر اسلام نے جو طریقہ حیات متعین کیا ہے اس کے پس منظر میں دو قوتیں کارفرما تھیں: ۱۔ عرب کا جاہل معاشرہ اور اس کی فضول رسومات۔ ۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ تعلیمات ۔ ان دونوں حقائق کو سامنے رکھ کر اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ۔لہذا عورت کے کردار کی نوعیت بھی ازسر نو متعین کی گئی اور تمام فرسودہ رسومات سے آزاد کر کے معزز مقام دلایا گیا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾ [1] ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت پیدا کر کے روئے زمین پر پھیلا دئیے۔اور اللہ جس کے نام کوتم اپنی حاجت کا ذریعہ بناتے ہو، اس سےڈرو اور ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ مندرجہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نے عورت کو وہی حیثیت دی ہے جو مرد کو حاصل ہے۔اسی طرح بحیثیت انسان بھی عورت کے اعمال اور نیک عمل کے بدلے ثواب میں مر دوں کے ہم سر قرار دیا ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًا﴾ [2] ’’ اور جو نیک عمل کرے گا،مر د یا عورت ،اور وہ صاحبِ ایمان بھی ہو گا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہونگے اور ان کی تِل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔‘‘ قبل از اسلام عرب معاشرے میں لوگ روزی کی تنگی کے پیشِ نظر یا بیٹی کی پیدائش کو اپنے لیے بے عزتی سمجھنے کے باعث زندہ در گور کر دیتے تھے۔ تو اللہ پاک نے ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
Flag Counter