woman) (1981ء) میں 20ممالک نے اسے قبول کیا۔ دستخط کرنے والوں میں10مسلم ممالک بھی شامل تھے ۔ [1] ا س میں مرد و عورت کے لیے مساوی سلوک اختیارکرنے کی، عالمی سطح پرپُرزور حمایت کی گئی۔اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ نے اسی ایجنڈے پر کئی کا نفرنسیں منعقد کرائیں اور چوتھی کانفرنس( 1995ء) کافی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔اس ایجنڈے کے نمایاں خدوخال یہ ہیں: ۱۔ مرد وعورت کی فطری مساوات،عورت کو اس کے روایتی کردار (ماں، بیٹی ، بہن،بیوی) پر مجبور نہ کیا جائے۔ ۲۔ معاشرے کے ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے ۔ ۳۔ منتخب اداروں میں خواتین کو نشستیں دی جا ئیں۔ اسی طرح ملا زمتوں میں بھی ،اوربچے پیدا کرنے کا اختیار عورت کو حاصل ہو۔ ۴۔ ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور جسم فروشی کو بھی قانونی تحفظ مہیا ہو۔ ’’تحریک آزادیِ نسواں نے اب تک جوکیا اور آئندہ جو کچھ حاصل کر نے والی ہے، اس کے نتائج خوفناک ہیں۔یہ تحریک انسانی معاشروں پر ایسی مصیبت لائی جو بالآخرمعاشروں کو تباہ کردے گی ۔‘‘ [2] عالم اسلام میں تحریک آزادیِ نسواں ،حقوق کے نام پر تمام اخلاقی قدروں کو تباہ کر نا چاہتی ہے ۔جبکہ اسلام خود حقوقِ نسواں کی ادائیگی کا سب سے بڑا حقیقی علمبردار ہے۔ " With respect to sex equality, the essential human dignity and fundamental equality of women, Islam is at one with the leaders of the feminist movement ,but as the application of an abstract principle is qualified and conditioned by social realities and concrete situation.''[3] اسلام دشمن تحریک کے خو فناک نتائج میں خاندان کا منتشر ہونا،جنسی بے راہ روی کا عام ہونا ،خود انحصاری کے غرور کا کمزور اذہان میں پیدا ہونا،مرد طبقے کے خلاف عورت طبقے کا نفرت کا اظہار کرنا اور معاشرے میں نفسیاتی بیماریوں کا پیدا ہونا شامل ہے۔ ان چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر اصل نقصانات کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ان اثرات سے خاندانی،نفسیاتی، اخلاقی جذباتی تباہی کس درجے پر ہوئی؟ اور اس نے پوری دنیا کو کس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے ؟ان کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مثلاًدہشت گردی ( خاص طور پر عورت کا خودکش |