برِصغیر میں حقوقِ نسواں کی کوششیں یہ منظر یورپ میں تحریکِ نسواں کا تھا۔ جبکہ برصغیر میں بھی ایسی تحاریک کا نام سننے میں آتا ہے جو عورتوں کے حقوق کی خاطر وجود میں آئیں۔ ’’انیسویں صدی کی ایک معاشرتی تحر یک ایسی ہے جسے برصغیر کی مسلمان عورتوں کے لحاظ سے ایک اہم واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تحریک تھی مسلمانوں کی تعلیم اور ان میں سماجی شعورپیدا کرنے کے لیے چلائی جانے والی علی گڑھ تحریک ،اس نے مسلمان عورتوں کے معاشرتی حالات کوبھی اُجاگر کیا۔‘‘ [1] ’’(1902ء )میں علی گڑھ کے شیخ عبداللہ نے مسلمان عورتوں کی تعلیم کا پرچم بلند کیااو ر( 1906ء ) میں مسلمان عورتوں کے لیے پہلا انگلش سکول کھولا۔‘‘ [2] (1908ء ) میں شیخ عبداللہ نے ایک ماہنامہ ’’خاتون‘‘بھی نکالا جس میں پردہ ختم کرنے کی حمایت کی جاتی تھی۔دہلی سے علامہ راشدی الخیری نے اپنا مشہور رسالہ ’’عصمت‘‘ بھی انہی دنوں نکالنا شروع کیا۔ [3] ’’آہستہ آہستہ اس تحریک کا اثر پورے ملک میں محسو س کیا جا نے لگا۔ بالائی طبقے کی عورتیں ہی اس تحریک کی قیادت کر رہی تھیں۔‘‘ [4] ’’(1935ء) کا گورنمنٹ ایکٹ نافذ ہوا تو ساٹھ لاکھ عورتوں کو ووٹ دینے کا حق مل گیا ۔عورتوں پے ہونے والے جبر کا خاتمہ کرنے کی پہلی کوشش (1929ء ) میں کی گئی ،جب بچوں کی شادی روکنے کے لیے قانون منظور کیا گیا۔‘‘ [5] اقوامِ متحدہ کا کردار تحریکِ آزادیِ نسواں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اوربالآخر اسے عالمی سطح پر لانے میں کامیاب ہوئی۔ اس تحریک کا دوسرا منظر اقوامِ متحدہ کا پلیٹ فورم ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ کمیشن کی پیش کردہ دستاویز’’ خواتین سے امتیاز کے خلاف اقوام متحدہ کا کنونشن‘‘(SEDAW document) (Convention of U.N.O on the elimination of all kinds of discrimination against |