’’حارث بن قیس ا سدی کہتے ہیں : میں اسلام لایا تو میری آٹھ بیویاں تھیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے چار اختیار کر لو۔‘‘ سابقہ مذاہب میں عورت کی اس حیثیت سے متعلق بوجوہ اختصار بہت کم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ان مستند واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں عورت کو بیٹی ہونے پر زندہ درگور کیا جاتا ہو،بیوی ہونے کی صورت میں صرف استعمال کی شے سمجھا جاتا ہو ،سَتی اورباربارطلاق دینے کے بعد عدت ختم ہونے سے قبل رجوع جیسی قبیح رسموں میں جکڑا جاتا ہو وہاں اسکی عزت و ا حترام کی باری کب اور کس روپ میں آتی ہو گی ؟ عورت عصرِحاضر میں جدیدتحاریک کے ساتھ اگر عورت کوعصرِ حاضر کے اقدارورواج کے سانچے میں جانچیں تو اندازہ ہو گا کہ کیا اب اسے وہ معاشرتی مقام حاصل ہوا ہے جس کی خواہش ہر عورت کرتی ہے؟ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے یامذہب سے تعلق رکھتی ہو، چاہے کسی بھی رشتہ سے منسوب ہویا عمر کا کوئی بھی حصہ ہو،یا مطلوبہ مقام حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ’’دور حاضر اپنے فکری فلسفے،تہذیبی تجربے اور معاشرتی رویوں کے باعث دراصل مغربی تجر بہ ہے....مغرب کی حکمت عملی یہ ہے کہ ا س تہذیبی جنگ کے لیے مسلم معاشروں ہی کو میدانِ جنگ کے طور پر منتخب کیا جا ئے ۔ اسی لیے تہذیبی تصادم مسلم معا شروں کے اندر بپا ہے۔مسلم معاشروں کی تعلیمی،معاشرتی،سیاسی،عسکری اور فکری قیاد تیں اس تہذیبی تصادم میں مغرب کی حمایت کر رہی ہیں۔‘‘ [1] مغرب کا غالب رجحان دراصل سیکولر ہے ۔مادی دنیا ہی ان کا حرف آخر ہے۔ وہ رشتوں پرتجربات کر تے ہیں اور انسانو ں کو بھی مشینوں کی طرح سمجھتے ہیں۔اپنی عسکری طاقت کے بَل بوتے پر پوری دنیا میں عیش کوشی ،سیکولر اور مادی نظام کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔ یورپ کا نیا دور تحریک تنویر (Enligment)سے شروع ہوتا ہے۔تحریک اصلاحِ مذہب(reformationR انقلابِ فرانس(French revolution) اور انگلستان میں صنعتی انقلاب (Industrial revolution)نے علمی و معاشرتی شخصیتیں پیدا کیں۔ ان فکری و عملی انقلاب نے معاشرتی حالات میں تبدیلی پیدا کی۔ اب آزادی اور مساوات(Freedom and equality) نئی قد ریں قرار پائیں۔ [2] چنانچہ’’ عورت کے حقوق کے لیے جو مہم چلائی گئی وہ دراصل ان نظریات پر مبنی تھی جو مغربی معاشرت کے |