ہندومت ہندومت میں سَتی کی رسم ، خلع و وراثت کے حق سے محروم رکھناہندوؤں کی تنگ نظری کا ثبوت ہے جبکہ سنسکرت میں لڑکی کو ’’دوہتر‘‘(دور کی ہوئی) بیوی کو ’’پتنی‘‘(مملو کہ)کہا جاتا ہے۔ [1] بیٹی کے لیے ’’لُوْنڈِ یا‘‘ کا لفظ بھی ہندوؤں کے ہاں عام ہے جس کا مطلب باندی یا غلام عورت کا ہے۔ قبل از اسلام سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(متوفیٰ1953ء) لکھتے ہیں: ’’اسلام سے پہلے جو اخلاقی مذاہب ہیں ان سب میں عورت اور مرد کے ازدواجی تعلقات کو اخلاق و ورع کی ترقی و اعلیٰ مدارج کے لیے مانع تسلیم کیا گیا۔ہندوستان میں بدھ،جین،ویدانت اور سادھو پن کے تمام پیرو اسی نظریے کے پابند تھے ۔عیسائی مذہب میں تجرد اور عورت سے بے تعلقی کو روحانی کمال کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔‘‘ [2] قبل ازاسلام عرب کے معاشرے پر نگاہ ڈالیں اور عورت کے معاشرتی مقام کا جائزہ لیں تو وہاں اس سے بھی کہیں زیادہ مایوسی ہو گی۔لڑکی کو زندہ درگور کرنے کا رواج عام تھا۔ بیٹا باپ کی بیوہ میں رغبت رکھتااور عورت وراثت کے حق سے محروم تھی۔ عرب معاشرے کی تصویر قرآن پاک یوں پیش کرتا ہے: ﴿ وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِيْمٌ٭يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ اَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ﴾[3] ’’اور ان میں کسی کو بیٹی کی خبر دی جائے تو سارا دن اس کا چہرہ بے رونق رہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہے یہ جس چیز کی اس کو خبر دی گئی ہے اس کی عار سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرے۔آیا اس کو بحالت ذلت لیے رہے یااس کو مٹی میں گاڑ دے۔‘‘ قیس بن عاصم نے جاہلیت میں آٹھ دس لڑکیاں دفن کی تھیں۔ گویا زمانہ جاہلیت میں لڑکی کی کوئی اوقات ہی نہ تھی۔ [4] عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِي ثَمَانُ نِسْوَةٍ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا[5] |