سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1979ء) تحریر کرتے ہیں: ’’یونان میں جب ’’کام دیوی‘‘ کی پرستش شروع ہوئی تو قحبہ خانہ عبادت گاہ میں تبدیل ہو گیافاحشہ عورتیں دیوداسیاں بن گئیں اورزنا ترقی کرکے ایک مقدس مذہبی فعل کے مرتبے تک پہنچ گیا۔‘‘ [1] روم رومی فلسفی و مدبرسنیکا(4ق م تا 65ء) کہتا ہے: ’’اب روم میں طلاق کوئی بڑی قابل شرم چیز نہیں رہی۔ عورتیں اپنی عمر کا حساب شوہروں کی تعداد سے لگاتی ہیں۔‘‘ [2] ایران ایران میں عورت کی حیثیت ایسی تھی کہ اس کی ذات میں انہیں کوئی اخلا قی قدر نظر نہیں آتی تھی حتی کہ ماں، بیوی، بیٹی کی تمیز اُٹھ گئی تھی ۔بابل میں تو د یوداسیوں کی ایک کثیر تعداد بھجن گاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ [3] یہودیت یہودیت بھی عورت کے بارے اچھا تصور نہیں ر کھتی۔ انکے نزدیک مرد نیک سر شت ہے اور حسنِ کردار کا حامل ہے اور عورت بد طینت ومکار ہے کیونکہ اس نے آدم کوبہِلا پھُسلا کر پھل کھانے پرآمادہ کیا جس سے اللہ نے منع کیا ہوا تھا۔ [4] یہودی قانون کے مطابق مرد وارث کی موجودگی میں عورت وارثت سے محروم ہو جاتی تھی۔اس طر ح عورت کو دوسری شادی کا حق بھی نہیں تھا۔ [5] عیسائیت عیسائی نقطہ نظر کا اندازہ طرطو لین (TertulianDied225 A.D)کے ان الفا ظ سے کیا جا سکتا ہے : ’’عورتو!تم نہیں جانتیں کہ تم میں سے ہر ایک حوّا ہے۔ خدا کا فتوٰ ی جو تمہاری جنس پر تھاوہ اب بھی تم میں موجود ہوتو پھر جُر م بھی تم میں مو جود ہوگا۔تم توشیطان کا دروازہ ہو۔ تم ہی نے آسانی سے خدا کی تصویر یعنی مرد کو ضائع کیا۔‘‘ [6] |