اطوار،رسومات یا معیاراتِ زیست میں یگا نگت پائی جا ئے۔‘‘ [1] معاشرہ سماجی تعلقات کا نظام ہے جس کے ذریعے ہم زندگی بسر کرتے ہیں، یہ معاشرتی تعلقات کا ایک جال ہے اور ہمیشہ تغیر پذیر رہتا ہے۔مندرجہ بالا تعریف میں معاشر تی ا فراد کے باہمی تعلقات ،افراد کی مختلف سرگرمیوں،پیشوں،معاشی ،سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کو شامل کیاگیا ہے ۔عورت اور مرد دونوں معاشرے کے بہت اہم کردار ہیں۔معاشرے میں زندگی کی بقاء کے لیے دونوں ایک دوسرے پر انحصار کر تے ہیں۔دونوں کرداروں میں خوشگوار سماجی تعلق ہی وقت کے بدلتے ہوئے جدید تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔ اپنے مسائل کے حل اور دیگر سماجی نظریات کو وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تمام مفید سرگرمیوں میں عورت بھی معاشرت سازی میں مرد کی ہم پلہ ہے۔ معاشرت سازی سے مراد اس عمل کا ارتقاء ہے جس سے معاشرتی اقدار کے مطابق معا شرے میں فرد ضروریات کی تسکین حا صل کر نا سیکھ جا ئے اور جس کے ذریعے فرد معاشرے کے قوانین کے تحت معاشرتی اقدار میں حصہ لے سکے۔تعر یف میں مذکور ’’کسی خطے کے لوگ‘‘میں سے ہم ایک اہم معاشرتی کردار عورت کی معاشرتی حیثیت پر اسلامی تناظر میں گفتگو کریں گے او ر ’’ کسی دور کے لوگ‘‘ سے ہمارا مقصد عصرِ حاضر کے حا لات کو عورت کی زندگی پرقرآن وسنت کی روشنی میں منطبق کرنااور جائز حدود کو واضح کرناہے۔ عورت کی چار معاشرتی حیثیات ہیں(ماں ،بیٹی،بہن،بیوی) ان چاروں حیثیات میں عورت زمانہ جاہلیت سے لے کر اب تک دیگر مذاہب میں بے شمار مسائل کا شکار رہی ہے۔ عورت کی تذلیل کی جاتی رہی اورتا حال بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ عورت کی بے حرمتی کی یہ داستان اسلام کے دائرے میں ختم ہو جاتی ہےاور جب بھی کسی معاشرے میں اسلامی حدود کی پامالی کی گئی،عورت کو ذلت کا سامنا کرناپڑا ۔ عصرِحاضر میں منتشر اور بدحال معاشرے اس کی زندہ مثال ہیں۔ مختصر تاریخی جائزہ یونان یونان میں عورت کی حیثیت کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ا سپارٹا کے قانون میں تو یہ تصریح موجود تھی : ’’ مسن و ضعیف القُوٰی شوہروں کو اپنی کمسن بیویاں کسی نوجوان کے حبالۂ عقد میں دے دینا چاہییں تا کہ فوج میں قوی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔‘‘ [2] |