بھی بہت سی باتیں قابل تکذیب ہو سکتی ہیں۔ [1] تاہم امام غزالی رحمہ اللہ کی اتنی بات میں وزن ہے کہ یہ اضافہ ثابت نہیں ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1999ء) نے بھی اس اضافے والی روایت کو ضعیف سنن النسائی (88۔1485) اور ضعیف ابن ماجہ (1262) میں ہی ذکر کیا ہے اور مسند احمد کی تحقیق کر تے ہوئے شیخ شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ (متوفیٰ 2016ء) نے بھی اس روایت کو انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ [2] یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس روایت کا ضعف اس وجہ سے نہیں جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ اصحاب علم وبنیش کے اُصولوں کے خلاف ہے بلکہ یہ اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اس کی سند میں انقطاع ہے جیسا کہ شیخ شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ وغیرہ نے وضاحت فرمائی ہے۔ [3] امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ الفاظ کو کسی راوی کا اضافہ ہی ثابت کیا ہے اور ذکر کیا ہے کہ یہ روایت ۱۹ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے (جن میں سیدہ عائشہ،اسماء بنت ابی بکر، علی بن ابی طالب، ابی بن کعب، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمرو، جابر بن عبد اللہ ، سمرہ بن جندب ،قبیصہ اللیالی، عبد الرحمن بن سمرۃ بھی شامل ہیں۔) لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت میں یہ لفظ ذکر نہیں کیے۔ [4] البتہ انہوں نے اس روایت کے حوالے سے ایک لطیف نکتہ بیان کیا ہے جس سے اس کا مفہوم صحیح ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ شمس وقمر کا گہنا جانا ہی ان کے خشوع وخضوع کی علامت ہے کیونکہ اس سے ان کا نور ختم ہو جاتا ہے اور یوں اس زمانے سے ان کی وہ چیز ہی ختم ہو جاتی ہے جس سے ان کی بادشاہت اور چمک قائم ہے، لہٰذا یہی رب العالمین اور اس کی عظمت کے سامنے ان کی عاجزی وانکساری ہے اگرچہ اس کا سبب بھی اللہ عزوجل کی تجلی ہی ہوتی ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ خشوع دو ہیں:ایک شمس وقمر کی روشنی ختم ہو جانا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کی تجلّی کے سامنے جھک جانا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جب پہاڑ کے لیے تجلّی فرمائی تھی تو وہ ریزہ ریزہ ہو کر زمین سے مل گیا تھا جو کہ خشوع کی انتہا تھی۔ البتہ شمس وقمر کو اللہ تعالیٰ نے جو باقی رکھا ہے وہ اپنی مخلوق کے مصالح کی وجہ سے ہے اور اگر اللہ چاہتے تو پہاڑ کو بھی باقی رکھتے مگر وہاں اللہ موسی کو دکھانا چاہتے تھے کہ اللہ کی تجلّی کے سامنے تو پہاڑ بھی |