Maktaba Wahhabi

98 - 114
تھی، لیکن بعد کے ادوار میں انسانی عمر بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کی اوسط عمر ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہے اور یہ عمر ہزار سال کا پندرھواں حصہ بنتی ہے۔ اب اگر تیس گز قد کاپندرہواں حصہ لیا جائے تو یہ دو گز یا چھ فٹ رہ جاتا ہے اور تقریبا یہی قد آج کل پایا جاتا ہے۔اگر کسی علاقہ کے لوگ چھ فٹ سے لمبے ہیں توکسی دوسرے علاقہ میں چھ فٹ سے قدرے کم ہوتے ہیں، اب اگر عمر کے تناسب کا ثبوت مل جاتا ہے تو پھر قد کا وہی تناسب حدیث سے ثابت ہو تو اس میں اعتراض یا حیرانگی کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہیں آتی۔ [1] 14۔سنن نسائی میں حضرت نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن الشمس والقمر لا ینکسفان لموت أحد ولا لحیاته ولکنهما آیتان من آیات اﷲ عز وجل. إن اﷲ عز وجل إذا بدأ لشئ من خلقه خشع له.)) [2] ’’ سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ گرہن لگنے کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز پر تجلی ڈالتے ہیں تو وہ خشوع وعجز کا اظہار کرتی ہے۔‘‘ اشکال اِمام ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں اِمام غزالی رحمہ اللہ کا تبصرہ یوں نقل کرتے ہیں: ’’إنها لم تثبت فیجب تکذیب ناقلها قال ولو صحت لکان تأویلها أهون من مکابرة أمور قطعیة لا تصادم أصلا من أصول الشریعة. ‘‘[3] ’’ یہ بات ثابت نہیں، لہٰذا اس کے راوی کی تکذیب واجب ہے۔ اگر روایت صحیح بھی ہو تواس کی تاویل کرنا ان قطعی امور کے بے جا انکار سے بہتر ہے، جو شریعت کی کسی اصل سے نہیں ٹکراتے۔‘‘ حل امام غزالی رحمہ اللہ کی یہ بات محل نظر ہے کہ اہل بینش اور اہل حسباں کے اصول قطعی ہیں لہٰذا ان کی تکذیب نہیں کی جا سکتی،کیو نکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہی ہیں۔ ضروری نہیں ان کی ہر بات قابل تصدیق ہی ہو بلکہ ان کی
Flag Counter