Maktaba Wahhabi

97 - 114
احادیث کو کس درجہ میں رکھا جائے گا جن میں خلفائے اربعہ کے بعد بھی لوگوں میں تفاضل کا ذکر ہے جیسے کہ عشرہ مبشرہ اور بدری صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ 13۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خَلَقَ اللّٰہ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ يَزَلِ الخَلْقُ يَنْقُصُ حَتَّى الآنَ )) [1] ’’ اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو پیدا فرمایا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔اس کے بعد سے لے کر اب تک مخلوق کا قد برابر چھوٹا ہوتا چلا آرہا ہے۔‘‘ اشکال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ویشکل علی هذا ما یوجد الآن من آثار الأمم السالفة کدیار ثمود فإن مساکنهم تدل على أن قامتهم لم تکن مفرطة الطول على حسب ما یقتضیه الترتیب السابق ولکن شك أن عهدهم قدیم وأن الزمان الذی بینهم وبین آدم دون الزمان الذی بینهم، وبین أول هذه الأمة ولم یظهر لي إلى الآن ما یزیل هذا الإشکال. ‘‘[2] ’’اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ گزشتہ اقوام، مثلا قوم ثمود کے آثار اور بستیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قد ہمارے قد کے بالمقابل اتنے لمبے نہیں تھے جتناکہ حدیث میں بیان کردہ ترتیب تقاضا کرتی ہے۔ ان کا زمانہ بھی بہت قدیم ہے۔ ان کے اور آدم کے مابین زمانی فاصلہ اس سے کم ہے، جو ان کے اور اس امت کے دور اول کے مابین ہے۔ تاحال میرے سامنے کوئی ایسی توجیہہ نہیں آئی جس سے یہ اشکال زائل ہوجائے۔‘‘ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (متوفیٰ808ھ)نے بھی اس روایت کو اس بنا پر رد کیا ہے۔ [3] حل اس اشکال کو بعض اہل علم نے یوں حل کیا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں لفظ ’’ذراع‘‘ ہے جس کا معنی ہے ہاتھ اور ہاتھ کی لمبائی ایک ڈیڑھ فٹ ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قد او رعمر دونوں ایسی چیزیں ہیں جو ابتدائے زمانہ میں بہت زیادہ تھیں لیکن رفتہ رفتہ کم ہوتی گئیں۔حضرت آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال تھی۔ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی عمر بھی ایک ہزار سال
Flag Counter