12۔صحیح بخاری میں نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’کنا في زمن رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا نعدل بأبي بکر أحدا ثم عمر ثم عثمان ثم نترك أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا نفاضل بینهم.‘‘ [1] ’’ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم عہد رسالت میں فضیلت کے اعتبار سے بالترتیب ابوبکر صدیق، پھر عمر فاروق، پھر عثمان غنی کو درجہ دیتے تھے اور ان اصحاب ثلاثہ کے ماسوی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کی کسی دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ اشکال علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ اس روایت پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’إن هذا الحدیث خلاف قول أهل السنة أن علیا أفضل الناس بعد الثلاثة فإنهم أجمعوا على أن علیا أفضل الخلق بعد الثلاثة ودل هذا الإجماع على أن حدیث ابن عمر غلط وإن کان السند إلیه صحیحا. ‘‘[2] ’’یہ حدیث اہل سنت کے اجماعی موقف کے خلاف ہے کہ اصحاب ثلاثہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صحابہ میں چوتھا درجہ حاصل تھا۔ اس لیے باوجود اس روایت کی سند ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بالکل ثابت ہے لیکن اس میں پیش کی گئی بات اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔‘‘ حل حدیث غلط نہیں بلکہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کو اسے سمجھنے میں غلطی لگی ہے اور اس کی درج ذیل وجوہ ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مذکورہ حدیث میں عہد رسالت کے عمل کا ذکر کیا ہے جبکہ اہل السنہ کا اجماع اس کے بعد (خلافت علوی کے دور میں) کی بات ہے اس لیے حدیث اپنی جگہ پر درست ہے۔ ابن عمررضی اللہ عنہما کا مقصود محض تین صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت بیان کرنا تھا ورنہ وہ خود اس بات کے معترف تھے کہ باقی لوگوں میں علی ہی افضل ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔[3] اور اس حوالے سے دوسری جگہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث نقل فرمائی ہے اور اسے قابل حجت کہا ہے۔ [4] اور اگر اس حدیث کا مفہوم وہی سمجھ لیا جائے جو امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے تو پھر ان تمام صحیح |