’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف ان تین جھوٹوں کی نسبت کرنے سے بہتر ہے کہ ان کی نسبت روایت کے راویوں کی طرف کی جائے۔‘‘ حل پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اعتراض ہی بے بنیاد ہے، کیونکہ امام رازی رحمہ اللہ نے یہ تو کہہ دیا کہ جھوٹ کی نسبت راویوں کی طرف کرنی چاہیے مگر یہ نہیں بتایا کہ بلا دلیل ثقہ رواۃ کو ضعیف کیسے قرار دیا جا سکتا ہے یا انہیں کاذب کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے۔جبکہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ اور عادل ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل تفصیل سے وضاحت ہوگی۔اس روایت کو بیان کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے دو سندیں ذکر کی ہیں اور ان میں موجود راویوں کی تعداد سات ہے وہ ساتوں اور ان کا مرتبہ آئندہ سطور میں ملاحظہ فرمائیے: سعیدبن تلید الرعینی رحمہ اللہ ،امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ثقہ فقیہ کہا ہے۔ [2] عبداللہ بن وہب بن مسلم رحمہ اللہ ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے۔[3] امام ابن حبان رحمہ اللہ (متوفیٰ 354ھ) نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔[4] امام ذہبی رحمہ اللہ (متوفیٰ 748ھ) نے ثقہ کہا ہے۔ [5] جریر بن حازم بن زید رحمہ اللہ ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔[6] امام ابن سعد رحمہ اللہ (متوفیٰ 175ھ) نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔ [7] ایوب بن ابی تمیمہ رحمہ اللہ ، امام شعبہ رحمہ اللہ ( متوفیٰ 160ھ) نے کہا ہے کہ میں نے ان کی مثل کوئی نہیں دیکھا |