ابن حجررحمہ اللہ دیگر اہل علم کے اشکالات کو اس لئے ذکر کر رہے ہیں تاکہ ان کے جوابات دے سکیں اور انہوں نے ہر اعتراض کا جواب دے کر اس کی تردید بھی کردی ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ البتہ ان کی وہ عبارت جو اس حدیث پر اعتراضات کرنے والوں نے اوپر ذکر کی ہے ، اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مکمل طور پر فتح الباری سے نقل کردیا جائے۔فتح الباری میں حافظ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ یوں نقل ہیں: ’’أقدم جماعة من الأکابر على الطعن في صحة هذا الحدیث مع کثرة طرقه و اتفاق الشیخین و سائر الذین خرجوا الصحیح على تصحیحه و ذلك ینادی على منکری صحته بعدم معرفة الحدیث و قلة الاطلاع على طرقه قال ابن المنیر: مفهوم الآیة زلت فیه الأقدام. ‘‘[1] ’’ یہ حدیث بہت سی اسانید سے مروی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ (متوفیٰ 256 ھ) اور امام مسلم رحمہ اللہ (متوفیٰ 261 ھ) نیز ان کے طریقہ تصحیح پر صحیح احادیث نقل کرنے والے علماء نے بھی اس کی صحت پر اتفاق کیا ہے اس کے باوجود اکابر اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث کی صحت کو ہدف طعن بنایا ہے اور یہ چیز ان کی فن حدیث میں عدم مہارت اور اس کی کثرت اسانید سے ناواقفیت کی دلیل ہے اور ابن منیر رحمہ اللہ (متوفیٰ 683ھ) نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آیت قرآنی کا مفہوم سمجھنے میں اکثر علماء کے قدم پھسل گئے ہیں۔‘‘ آپ غور کریں کہ مذکورہ عبارت میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اعتراض کرنے والے علماء کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان کامبلغ علم بیان فرما رہے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں نے مکمل عبارت کو یوں نقل کیا ہے کہ گویا ابن حجر رحمہ اللہ اعتراض کرنے والے علماء کے ہم نوا ہیں، جبکہ درمیان عبارت میں کچھ فقرے چھوڑ دیے، جن میں درحقیقت ابن حجر رحمہ اللہ نے ان اہل علم کے مبلغ علم پر تبصرہ فرمایا ہے۔ اس قسم کی بد نیتی کی امثلہ علمائے حدیث کے ہاں ہرگز نہیں ملتیں، جس قسم کی مثالیں اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے منکرین حدیث پیش کرتے ہیں۔ 10۔صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لم یکذب إبراهیم علیه السلام إلا ثلاث کذبات.)) [2] ’’ ابراہیم علیہ السلام نے پوری زندگی میں صرف تین جھوٹ بولے ہیں۔‘‘ اشکال اِمام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس روایت کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لأن یضاف الکذب إلى رواته أولى من أن یضاف إلى الأنبیاء علیهم الصلوة والسلام. ‘‘[3] |