ہیں۔ قاضی ابو بکر رحمہ اللہ تقریب میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان اخبار احاد میں سے ہے جنکا ثبوت مشکوک ہے۔ [1] اِمام الحرمین رحمہ اللہ (متوفیٰ 478ھ) کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح احادیث کے زمرے میں نہیں آتی اور البرهان في أصول الفقه میں ان کا یہ قول موجود ہے کہ اس کو علمائے حدیث صحیح تسلیم نہیں کرتے۔[2] اِمام غزالی رحمہ اللہ (متوفیٰ505ھ) المستصفی میں لکھتے ہیں کہ اس کا غیر صحیح ہونا بالکل واضح ہے۔[3] امام داوودی رحمہ اللہ (متوفیٰ 402 ھ) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ہے۔‘‘ حل قرآنی آیت : ( اسْتَغْفِرْلَهُمْ أَوْلاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ) پر غور کیاجائے تو اس میں لفظ (أو) استعمال ہوا ہے جو تخییر کے لئے ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی اس پر شاہد ہیں:((إنما خیّرنى اﷲ))کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے لئے استغفار کرنے، نہ کرنے میں اختیار دیا ہے یعنی ابھی تک منع نہیں کیا، اس پر یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آیت سے اختیار کا مفہوم اخذ کرنے میں اشکال ہے۔‘‘ آپ کے مقام نبوت پر اعتراض ہے جو کسی امتی کو زیب نہیں دیتا۔ ایک اشکال اور اس کا حل حدیث نبویہ کو عقلی اصولوں سے رد کردینے والوں کی عجیب نفسیات ہیں کہ اگر کوئی محدث اہل علم میں سے کسی کا اشکال اس لئے نقل کرتا ہے تاکہ وہ ا س کا جواب دے تو ان بے چاروں کو اشکال تو نظر آجاتا ہے جو صحیح حدیث پر کیا گیاہے لیکن اس کے ساتھ اس اشکال کا جواب نقل کرنے سے ان کا قلم قاصر رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو ہی لے لیجئے جوحدیث نبوی کے بہت بڑے خادم ہیں۔ وہ حدیث پر اپنی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کرتے، ہاں دیگر حضرات کے اٹھائے ہوئے اشکالات کے دلائل کے ساتھ جوابات ضرور دیتے ہیں۔ زیر نظر حدیث میں بھی انہوں نے بعض اہل علم کے اشکالات کو اس لئے ذکر کیا ہے تاکہ ان کی تردید کریں، لیکن نام نہاد درایت کے دعویداروں نے امام ابن حجر رحمہ اللہ کو بھی منکرین حدیث کی صف میں لاکھڑا کیا اور کہا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آیت سے اختیار کا مفہوم اخذ کرنا محل اشکال سمجھا گیا ہے، حالانکہ حافظ |