Maktaba Wahhabi

89 - 114
کے دوسرے دعوی کا تعلق ہے کہ موسی کلام الٰہی سننے کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کا کہہ ہی نہیں سکتے، یہ دعوی بالکل بجا ہے کیونکہ جب موسی نے فرمان الٰہی سنا ہی نہیں تو اس کی خلاف ورزی کیونکر کر سکتے ہیں،کیونکہ پہلا دعوی ہی ثابت نہیں ہوسکا۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو اس روایت سے یہ دلیل کیسے تراشی جاسکتی ہے اور بخاری جیسی اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی روایات کو مشکوک کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ 9۔صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن أبی منافق کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفن دینے کے لئے اپنی قمیص دی، پھر اس کا جنازہ پڑھانے کے لئے اٹھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’تصل علیه وهو منافق وقد نهاك اﷲ أن تستغفر لهم. قال رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنما خیرني اﷲ فقال: ﴿اسْتَغْفِرْلَهُمْ أوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَن یَغْفِرَ اللّٰہُ لَهُمْ﴾،فقال: سأزیده على سبعین. ‘‘[1] ’’کیا آپ منافق کا جنازہ پڑھائیں گے، آپ نے فرمایا مجھے اللہ نے اختیار دیا ہے اس لئے میں ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کروں گاتاکہ اس کی مغفرت ہوجائے اس کے بعد آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔‘‘ اشکال اس روایت کو متعدد محدثین عظام رحمہم اللہ نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’واشتشکل فهم التخییر من الآیة حتی أقدم جماعة من الأکابر على الطعن في صحة هذا الحدیث مع کثرة طرقه واتفاق الشیخین وسائر الذین خرجوا الصحیح علی تصحیحه ... أنکر القاضی أبو بکر صحة هذا الحدیث وقال: لا یجوز أن یقبل هذا ولا یصح أن الرسول قاله، انتهی.ولفظ القاضی أبي بکر الباقلاني في التقریب: هذا الحدیث من أخبار الآحاد التی لا یعلم ثبوتها.وقال إمام الحرمین في مختصره: هذا الحدیث غیر مخرج في الصحیح وقال في البرهان: لایصحه أهل الحدیث وقال الغزالي في المستصفى: الأظهر أن هذا الخبر غیر صحیح وقال الداوودی الشارح: هذا الحدیث غیر محفوظ . ‘‘[2] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آیت سے اختیار کا مفہوم اخذ کرنا محل اشکال سمجھا گیا ہے، اسی لیے اکابر اہل علم کی ایک جماعت نے باوجودیکہ اس کی سندیں بہت سی ہیں اور شیخین ، نیز صحیح احادیث جمع کرنے والے دوسرے محدثین اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں، اس حدیث کی صحت پر اعتراض کیا ہے؟ قاضی ابوبکر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح ماننے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو قبول کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرما سکتے
Flag Counter