نہیں کی۔ ‘‘[1] المختصر ابن قیم رحمہ اللہ اور اِمام صنعانی رحمہ اللہ کی توضیحات بالکل معقول معلوم ہوتی ہیں جوکہ مذکورہ حدیث پرابن حزم رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ اشکال کا کافی شافی جواب ہیں۔ ایک اشکال اور اس کا حل اِمام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری ذکرکردہ توجیہ کے باوجود یہاں ایک اور اشکال باقی رہ جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ہر مطالبے کے جواب میں ’’نعم‘‘ کہہ کر اسے قبول کیا تھا، حالانکہ ام حبیبہ ضی اللہ عنہا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں ہوتے ہوئے آپ اس کی بہن عزہ سے نکاح کی پیش کش کو قبول نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ دو بہنوں کا ایک آدمی کے نکاح میں جمع ہونا حرام ہے۔ اس کا جواب اِمام ابن قیم رحمہ اللہ نے ہی یوں دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے تمام مطالبات نہیں بلکہ ان میں سے بعض قبول کئے تھے جن کا قبول کرنا ممکن تھا یعنی ابوسفیان کے کہنے پر ان کے بیٹے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی بنا لیا تھا، لیکن عزہ سے نکاح کرنا چونکہ ناممکن تھا ا س لئے آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔ [2] 8۔صحیح بخاری میں واقعہ معراج کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا موسی علیہ السلام کے کہنے پر نمازوں میں تخفیف کے لئے بارہا اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے رہے، آخری مرتبہ جب آپ واپس ہوئے اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر واپس جانے کو کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنایا کہ﴿ مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ ﴾یعنی ’’اس حکم میں مزیدکوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘‘، لیکن موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ جانے کے لئے کہا۔ اشکال محدث داؤدی رحمہ اللہ (م 402 ھ)فرماتے ہیں: ’’ یہ بات درست نہیں کیونکہ باقی تمام روایات اس کے برخلاف بیان کرتی ہیں نیز موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا ارشاد سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ جانے کانہیں کہہ سکتے۔‘‘ [3] حل کلام خواہ نبی کا ہو یا غیر نبی کا، اس کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے جو اشکالات پیدا ہوتے ہیں، بالکل وہی |