Maktaba Wahhabi

86 - 114
ہوئے کسی حدیث سے مسائل اخذ کرنے یا ان کا حقیقی مصداق معلوم کرنے میں بسا اوقات اختلاف فکر رونما ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں ظاہر بات ہے کہ کسی دلیل کی بناء پر جمہور علماء کی رائے ہی اختیار کی جائے گی اور دوسری رائے کو دلیل ہی کی بنیاد پر شاذ قرار دے کر چھوڑ دیا جائے گا۔ ہمارے خیال میں اگر ابن حزم رحمہ اللہ نے بعض روایات پر اپنے بعض اشکالات کو پیش کیا ہے تویہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ معصوم عن الخطا تو نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر دیگر آئمہ کی تنقید موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آئمہ کے شاذ اقوال کی بنیاد پر تحقیق روایت میں سند کو چھوڑ کر متن کے بل بوتے پر داد تحقیق دینے کا دعوی کرتے ہیں، ان کی بات عقلاً محال ہے، کیونکہ فقہاء کے مختلف اقوال بھی ہماری طرف روایت ہی کی جہت سے منقول ہوئے ہیں۔ واقعہ کا پس منظر اس واقعہ کا پس منظر سامنے رہے تو یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ ابو سفیان نے اپنی بیٹی عزہ ، جس کی کنیت ام حبیبہ تھی، سے نکاح کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کش کیوں کی تھی؟ اس سلسلہ میں صحیح مسلم کی ہی ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی طرف سے باقاعدہ وضاحت موجود ہے کہ ابو سفیان کے اسلام قبول کرنے کے باوجود مسلمان نہ ان کی طرف توجہ کرتے اور نہ ان کے ساتھ بیٹھتے، انہوں نے یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ان کی بیٹی ام حبیبہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح فرمالیں۔ اس تناظر میں ہم ابن حزم رحمہ اللہ کے اس شاذ قول کی تردید میں ذیل میں بعض آئمہ سلف کے اقوال نقل کر رہے ہیں: حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی یہ تنقید علامہ صنعانی رحمہ اللہ (متوفیٰ1182 ھ) کی کتاب ’’توضیح الافکار‘‘کے ص 128 پر موجود ہے، مگر علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے اِمام ابن حزم رحمہ اللہ کے اعتراض کو نقل کرنے کے متصل بعد خود ہی ابن حزم رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کیے گئے اشکال کے مختلف جوابات ذکر کئے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ابوسفیان نے ام حبیبہ کے رشتے کی بابت بات نہیں کی تھی بلکہ ان کی بہن عزہ سے رشتے کی پیش کش کی تھی، بلکہ اس سے قبل ایک دفعہ خود حضرت ام حبیبہ نے بھی اپنی اسی بہن سے نکاح کرنے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا تھا توآپ نے فرمایا: ایک آدمی کے نکاح میں دو سگی بہنیں جمع نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ابوسفیان نے بھی آپ سے عزہ سے نکاح کرنے کا اظہار کیا تھا، لیکن راوی نے غلطی سے عزہ کی بجائے ام حبیبہ کہہ دیا ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751 ھ) نے اس سلسلہ میں ابن حزم رحمہ اللہ کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے ایک بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے: ’’ عزہ کی کنیت بھی اپنی بہن کی کنیت پر ام حبیبہ ہی تھی، لہٰذا عزہ کوام حبیبہؓ کہنے میں بھی راوی نے کوئی غلطی
Flag Counter