قبل البعثة وباﷲ التوفیق. ‘‘[1] ’’اور مذکورہ جواب سے اِمام خطابی رحمہ اللہ (متوفیٰ388ھ) اور ابن حزم رحمہ اللہ کی تنقید بھی رد ہوجاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ شریک نے یہ کہہ کر اجماع کی مخالفت کی ہے کہ واقعہ معراج بعثت سے پہلے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ اس کا جواب ہے جو ہم نے پیش کردیا۔‘‘ اس حوالے سے یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ایک حدیث اگر اجماع امت کے خلاف ہو یا تو وہ منسوخ ہوگی یا مرجوح ۔ اگر نسخ یا ترجیح دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو تو ایسا دعویٰ اجماع جھوٹ ہے۔ پھر ایک حدیث اجماع کے خلاف ہو توپھر بھی ضعیف کیسے ہوسکتی ہے؟ کیونکہ اجماع فن فقہ کی اصطلاح ہے اور حدیث کی تحقیق فنِ حدیث کے اصولوں پر کی جاتی ہے۔ خلاصہ کلام ہماری مندرجہ بالا تصریحات سے امام ابن حزم رحمہ اللہ کے اشکال کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ واقعہ معراج بعثت کے بعد ہوا ہے اور روایت میں مذکورہ بات درست نہیں ہوسکتی، کیونکہ اس سے واقعہ معراج کے بعثت نبوی سے پہلے ظہور پذیر ہونے کا اشارہ ملتا ہے اور یہ بات اہل علم کے اتفاق کے خلاف ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اہل علم کا اتفاق تو اس بات پر ہے کہ معراج کا واقعہ نبوت کے بعد کا ہے، جبکہ فرشتوں کی آمد واقعہ معراج سے قبل ہوئی ہے کہ نہیں؟ تو اس سلسلہ میں انہیں کوئی انکار نہیں۔ 7۔صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابوسفیان نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دختر ام حبیبہ کے ساتھ نکاح کی پیش کش کی۔ [2] اشکال اِمام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام حبیبہ کے ساتھ نکاح فتح مکہ سے بہت عرصہ پہلے ہوچکا تھا، جبکہ ابوسفیان ابھی ایمان نہیں لائے تھے، لہٰذا اس روایت کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ [3] حل اللہ تعالیٰ نے چونکہ تمام انسانوں کو مختلف ذہنی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کو بروئے کار لاتے |