مَعَكَ قَالَ مَعِيَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ قَالَ نَعَمْ قَالُوا فَمَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا)) [1] ’’جبریل علیہ السلام کی معیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان دنیا کے پاس پہنچے، جبریل علیہ السلام نے دروازے پر دستک دی، آسمان کے فرشتوں نے پوچھا کون ہے؟ کہا کہ میں جبریل علیہ السلام ہوں، کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،پوچھا گیا، کیا آسمانوں پر لانے کے لیے ان کی طرف سے کسی کو بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں۔ تو اس نے ہمارے دروازہ کھول دیا اور تمام فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔‘‘ اپنے موقف کے حق میں اٹھائے گئے مختلف اشکالات کو بلا تحقیق نقل کرتے جانا اور ان اشکالات کی تردید میں اہل تحقیق کے اقوال کو نظر انداز کردینا علم کی خدمت نہیں ہے۔ کم از کم اگر اس حدیث کے الفاظ کو ہی دیکھ لیا جاتا، جس پر اِمام ابن حزم رحمہ اللہ نے تنقید کی ہے تو اس حدیث سے ہی اس اشکال کا جواب آسانی سے مل سکتا تھا، کیونکہ اس میں فرشتوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا ذکر دو دفعہ ہے، ایک دفعہ بعثت سے پہلے اور دوسری دفعہ بعثت کے بعد جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج کرایا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ولم یعین المدة التی بین المجیئین فیحمل على أن المجئ الثاني کان بعد أن أوحی إلیه وحینئذ وقع الإسراء والمعراج وإذا کان بین المجیئین مدة فلا فرق في ذلك بین أن یکون تلك المدة لیلة واحدة أو لیال کثیرة أو عدة سنین وبهذا یرتفع الإشکال عن روایة شریك و یحصل به الوفاق أن الإسراء کان في الیقظة بعد البعثة وقبل الهجرة . ‘‘[2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کی دو دفعہ آمد کے درمیان وقفہ کس قدر تھا اس کی مدت کو معین نہیں کیا گیا، لیکن قیاس کا تقاضا یہی ہے کہ دوسری دفعہ ان کی آمد تب ہی ہوئی تھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوچکا تھا اور اسی وقت اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا، جبکہ یہ ثابت ہواکہ فرشتوں کی آپ کے پاس دو دفعہ آمد کے درمیان وقفہ تھا، تو وہ وقفہ آپ کی بعثت سے پہلے ایک رات کا ہو یا کئی راتوں کا بلکہ کئی سالوں کابھی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بایں طور شریک کی اس روایت سے اشکال رفع ہوجاتا ہے اور یہ حدیث دوسری احادیث کے ساتھ مفہوم کے لحاظ سے موافق ہوجاتی ہے کہ اسراء اور معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت سے پہلے اور بعثت کے بعد بیداری میں ہواہے۔‘‘ باقی رہا یہ دعوی کہ یہ حدیث اجماع امت کے خلا ف ہے ، تواس سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ویسقط تشنیع الخطابي وابن حزم وغیرهما بأن شریکا خالف الإجماع في دعواه أن المعراج کان |