وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ... ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا)) [1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنے سے پہلے تین فرشتے آپ کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں سو رہے تھے، پہلے فرشتے نے کہا کہ ان تینوں میں سے وہ کون ہے؟ درمیان والے فرشتے نے کہا کہ جو ان تینوں میں سے بہتر ہے۔ آخری نے کہا کہ جو ان میں سے افضل ہے اسے لے چلو۔اس رات کو اتنا ہی واقعہ ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں نہیں دیکھا، اسکے بعد ایک رات دوبارہ وہ فرشتے آئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ کا دل بیدار تھا اور آنکھیں سو رہی تھیں، کیونکہ آپ کا دل نہیں سوتا تھا اور تمام پیغمبروں کا یہی حال ہوتا تھا ان کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل بیدار رہتا تھا، اس دفعہ ان فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات نہیں کی اور آپ کو اٹھا کر زمزم کے کنویں کے پاس لے گئے اور آپ کا سینہ چاک کیا ... پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان دنیا پر لے گئے۔‘‘ مذکورہ حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کی آمد دو دفعہ ہوئی۔ پہلی دفعہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نبوت سے پہلے آئے اور آپ کو ساتھ لے کر نہیں گئے بلکہ اس وقت صرف شناخت کرکے واپس لوٹ گئے۔ اور جب فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوسری دفعہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منصب نبوت پر فائز ہوچکے تھے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء ومعراج کا واقعہ دوسری دفعہ کا ہے، کیونکہ پہلی دفعہ فرشتے آپ کو دیکھنے کے بعد باہم استفسار کرکے ہی چلے گئے تھے۔ ہمارا یہ دعوی کہ فرشتوں کی دوسری دفعہ آمد اور اسراء ومعراج کا واقعہ مقام نبوت پر سرفراز ہونے سے بعد کا ہے، اس کے کئی ایک دلائل ہیں: مذکورہ اس روایت میں فرشتوں کے دوسری دفعہ آنے کا ذکر ہے اور یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں کہ ((حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ)) ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ دیگر انسانوں کی مانند ایک عام انسان نہیں رہے بلکہ انبیاء کرام کی ارفع صفات سے متصف ہوچکے ہیں اور انبیاء کا یہ خاصا ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں، لیکن دل جاگتے رہتے ہیں۔ مذکورہ الفاظ سے آنکھوں کے سونے اور دل کے جاگنے کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان ہوئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی دوبارہ آمدآپ کے مقام نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد کی ہے۔ ہمارے مذکورہ دعوی کہ فرشتے دوسری دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج پر لے کر گئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا تاج پہنا دیا گیا تھا، کی دوسری دلیل وہ الفاظ ہیں جو مذکورہ حدیث میں یوں وارد ہیں: ((ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَضَرَبَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِهَا فَنَادَاهُ أَهْلُ السَّمَاءِ مَنْ هَذَا فَقَالَ جِبْرِيلُ قَالُوا وَمَنْ |