Maktaba Wahhabi

81 - 114
اشکال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إسناده جید لکن عده مسلم في جملة ما أنکر على عمرو بن شعیب لأن ظاهره ذم النقص من الثلاث. ‘‘[1] ’’ اس کی سند عمدہ ہے لیکن اِمام مسلم نے اس کو عمرو بن شعیب کے منکرات میں شمار کیا ہے کیونکہ ظاہر کے لحاظ سے یہ روایت تین مرتبہ سے کم دھونے والے کی مذمت کرتی ہے،حالانکہ صحیح روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے۔‘‘ حل جس مقام پر ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ اشکال پیش کیا ہے، اسی جگہ خود ان مختلف صحیح روایات میں موافقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’روایت کے الفاظ دیکھیں تو وہاں من زاد على هذا أو نقص کے الفاظ موجود ہیں۔ اس لیے’نقص‘سے مراد تین مرتبہ دھونے کی تعداد میں کمی کرنا مراد نہیں بلکہ ایک مرتبہ وضو کے اعضاء دھونے میں نقص اور کوتاہی کرنا مراد ہے۔ بایں طور کہ وضو کے اعضاء کو ایک بار دھوتے ہوئے مکمل نہ دھویا جائے بلکہ ان کے بعض حصوں میں خشک جگہیں باقی ہوں جو دھونے سے رہ جائیں، جیساکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دیکھا کہ وضو کرنے والوں کی ایڑھیوں میں خشک جگہیں پائی جاتی ہیں جو دھونے سے رہ گئی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ویل للأعقاب من النار))المختصر سنن ابو داؤد کی روایت میں وارد شدہ ’ نقص‘ کے لفظ سے یہی مراد ہے۔‘‘ [2] لیکن اگر نقص کے الفاظ سے مراد تین دفعہ سے کم دھونے کانقص مراد لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پھر یہ راوی کا ایسا وہم ہے جو بسا اوقات انسان ہونے کے ناطے ہونا ممکن ہے۔ جیساکہ امام سیوطی رحمہ اللہ (متوفیٰ 911ھ) نے ابن المواق رحمہ اللہ (متوفیٰ 897 ھ) سے ایسا ہی نقل کیا ہے۔‘‘ [3] اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے علاوہ بعض دیگر محدثین نے ایک اور جواب اس اشکال کا دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ سنن ابو داؤد کی حدیث مذکور راوی کے وہم پر مشتمل ہے۔جیسا
Flag Counter