Maktaba Wahhabi

78 - 114
اشکال پیش کرتا ہے تو یہ لوگ اس شاذ قول کو اٹھا لیتے ہیں اور جواب گول کرجاتے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اِمام ابن بطال رحمہ اللہ کے مذکورہ موقف کو نقل کرنے کے متصلاً بعد خود وضاحت فرمائی ہے: ’’قلت یمکن أن یحمل على التغلیب. ‘‘[1] ’’ہوسکتا ہے مومنین کومشرکین پر غلبہ دیتے ہوئے دونوں جماعتوں کو من المؤمنین سے تعبیر کردیا ہو ،جیسے شمس و قمر کو تغلیباً ’قمران‘کہہ دیا جاتاہے۔‘‘ آیت کریمہ کاشان نزول زیر بحث مسئلہ علم حدیث سے کہیں بڑھ کر علم تفسیر سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب سے پہلے مفسرین عظام کی طرف رجوع کریں کہ انہوں نے اس آیت کے شان کے بارے میں کیا کہا ہے؟ کیونکہ کسی بھی آیت کے شان نزول اور پس منظر سے در پردہ حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور اشکال کی تمام صورتیں زائل ہوجاتی ہیں۔ سورۃ الحجرات کی مذکورہ آیت کا پس منظر ذکر کرتے ہوئے علامہ نسفی رحمہ اللہ (متوفیٰ 537 ھ) فرماتے ہیں: ’’ومضیٰ رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وطال الخوض بینهما حتی استبا وتجالدا وجاء قوماهما وهما الأوس والخزرج فتجالدوا بالعصی وقیل بالأیدی والنعال والعسف فرجع إلیهم رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأصلح بینهم ونزلت. ‘‘[2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تووہاں سے چلے گئے اور ان دونوں کا جھگڑا طول پکڑ گیا، دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور مارکٹائی کی، نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ دونوں کی قومیں اوس اور خزرج بھی آن پہنچے جن کے درمیان لاٹھیوں سے اور بعض کے بقول ہاتھوں، جوتوں اور کھجور کی چھڑیوں سے لڑائی ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آکر ان کی صلح کرائی اور یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ اِمام ابو سعود رحمہ اللہ (متوفیٰ 982 ھ)نے اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’والآیة نزلت في قتال حدث بین الأوس و الخزرج فی عهده علیه الصلوٰة والسلام . ‘‘[3] ’’یہ آیت اس لڑائی سے متعلق نازل ہوئی ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اوس و خزرج دو قبیلوں کے درمیان
Flag Counter