ہاتھ، انگلیاں، ناخن اور پورے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے چیزیں پکڑتے اور ہاتھوں سے ہی کھاتے ہیں۔ دو پاؤں پرچل سکتے ہیں اور ان کا اپنے بچوں کے اٹھانے کا طریقہ بھی انسانوں سے ملتا جلتا ہے۔ دوسرے حیوانات سے کہیں بڑھ کر ان میں غیرت پائی جاتی ہے۔ [1] خلاصہ کلام خلاصہ بحث یہ ہے کہ صحیح بخاری میں بیان کردہ عمرو بن مامون رحمہ اللہ کی حدیث خود ان کا چشم دید واقعہ ہے، کوئی مرفوع حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں، جس پر تعجب کا اظہار کیا جاسکے کہ بندر تو ایک غیر مکلف مخلوق ہیں اوران میں زنا ورجم کا سوال پیدا کرنا ہی فضول سی بات ہے؟ ہم عرض کریں گے کہ جنات نے بندروں کی شکل اختیار کرلی تھی اور جنات انسانوں کی مانند شرعی احکام کے مکلف ہیں، یا عین ممکن ہے کہ انسانی صفات سے مشابہت کی بنا پر بندروں کی جنس میں بھی غیرت کا مادہ اس قدر سنگین ہو کہ مکلف نہ ہونے کے باوجود بندر نے اپنی بندریا کے دوسرے بندرکے ساتھ جفتی ہونے کی وجہ سے شور مچا دیا ہو اور سب بندروں نے مل کر پتھر مار مار کر دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہو۔ اگرچہ بندروں کی مخلوق ’رجم‘ یا ’زنا‘ کے مفہوم سے ناآشنا ہے، لیکن اسے زنا یا رجم کے الفاظ سے ذکر کرنا تو دیکھنے والے راوی کی تعبیر ہے۔ 4۔صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ عبداللہ بن ابی کے حامیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین جھگڑا ہوگیا، جس پریہ آیت اتری: ﴿ وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا﴾ [2] ’’ اگرمومنوں کی دو جماعتیں باہم لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو۔‘‘ اشکال محدث ابن بطال رحمہ اللہ (متوفیٰ 449 ھ) فرماتے ہیں: ’’یہ آیت اس واقعہ کے متعلق نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں دو مومن گروہوں میں صلح کرانے کا ذکر ہے، جبکہ روایات کے مطابق عبداللہ بن ابی اور اس کا گروہ اس وقت تک علانیہ کافر تھا۔‘‘ [3] حل ’اہل درایت‘ کا عام طریقہ یہ ہے کہ جہاں بھی کوئی محدث کسی روایت پر کسی دوسرے محدث کے قول کو بطور |