حل اَحادیث نبویہ پر اعتراض کرنے والے بھی عجیب ذوق کے مالک ہوتے ہیں، جہاں انہیں کسی عالم کا قول حدیث نبوی کے خلاف مل جائے تو اسے حجت بناکر حدیث کی تردید میں پیش کردیتے ہیں اور اگر اسی عالم کا قول کسی روایت کی تائید میں ثابت ہو تو اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس سے قبل حدیث ابراہیم کے خلاف اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ کے قول کو انہوں نے پیش کرکے انکار حدیث کی دلیل بنا لیا، لیکن اسی عمرو بن میمون رحمہ اللہ کے واقعہ کو ابن حجر رحمہ اللہ (متوفیٰ 852 ھ) نے اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے اس واقعہ کی تائید کرتے ہوئے اسے تفصیلاً ذکر کیا ہے۔[1] لیکن یہاں امام اسماعیلی رحمہ اللہ کی تائید کو قصدا نظر انداز کردیا گیا ہے۔ حقیقتِ حال بندروں کے رجم کرنے کا واقعہ نہ تو کوئی مرفوع حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہو اور نہ ہی کسی صحابہ کا قول ہے، بلکہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ کا چشم دید واقعہ ہے جو کہ کوفہ کے رہنے والے اور تابعی ہیں۔ نیز امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ اعتراض حدیث پر اعتراض کے بجائے ایک تابعی کے مشاہدے پر اعتراض ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اشکال کا حل اِمام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی طرف سے اسے صحیح تسلیم کرتے ہوئے ایک د وسری تاویل بھی ذکر کی گئی ہے، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فإن کانت الطریق صحیحة فلعل هؤلاء کانوا من الجن لأنهم من جملة المکلفین. ‘‘[2] ’’ اس واقعہ کی سند صحیح ہونے کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ (بندروں کی صورت میں) وہ جن ہوں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح مکلف ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن عبد البر رحمہ اللہ کی پیش کردہ توجیہ سے اتفاق کرتے ہوئے بڑی تفصیل سے ذکر کیاہے کہ ایسا واقعہ بندروں سے بھی صادر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ اپنی عادتوں میں انسان کے بہت مشابہ ہیں۔ دوسرے حیوانوں کی بہ نسبت ان میں سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔ جو ہنر چاہیں آپ انہیں سکھا سکتے ہیں اور جو کچھ یہ دیکھتے ہیں اس کی نقل اتار لیتے ہیں۔ انسان کی طرح یہ ہنستے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ انسانوں کی مثل ان کے |