Maktaba Wahhabi

75 - 114
جہنم میں پھینکا جانا یقیناًرسوائی کا باعث ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلَ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَیْتَهُ﴾اور والد کی رسوائی یقیناًبیٹے کی بھی رسوائی ہے اور بیٹے کو رسوا نہیں کیا جائے گا یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا۔ اس پر ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اے اللہ ! تیرا تو مجھ سے وعدہ ہے کہ تو مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا تو جوا ب میں اللہ نے فرمایا کہ ’’میں نے کافروں پر جنت کو حرام کردیا ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی وعید تھی اور ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا۔اللہ تعالیٰ نے دونوں کو پورا یوں کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کی صورت تبدیل کر دی اور انہیں بجّو کی شکل دے کر جہنم میں پھینک دیا۔ اس طرح وہ صورت ہی باقی نہیں رہی جو ابراہیم علیہ السلام کی رسوائی کا ذریعہ تھی اور وہ ان کے والد کی صورت تھی۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کی بھی مخالفت نہیں کی۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کو رسوا ہونے سے بچا لیااور وعید کو بھی پورا کر دیاکہ کافروں پر جہنم حرام ہے۔ [1] 3۔حضرت عمرو بن ميمون کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریا دیکھی، اس کے چاروں طرف بہت سےبندر جمع ہو گئے تھے، اس بندریا نے زنا کیا تھا، اس لیے سب بندروں نے مل کر اسے رجم کیا اور ان کے ساتھ میں بھی پتھر مارنے میں شریک ہوا۔ [2] اشکال حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفیٰ 463 ھ) اس حدیث پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فیها إضافة الزنا إلى غیر مکلف وإقامة الحدّ على البهائم وهذا منکر عند أهل العلم. قال فإن کانت الطریق صحیحة فلعل هؤلاء کانوا من الجن لأنهم من جملة المکلفین. ‘‘[3] ’’اس میں زنا کی نسبت غیر مکلف کی طرف کی گئی ہے اور جانوروں پر حد لگانے کا ذکر ہے، اہل علم کے نزدیک یہ بات بعید از قیاس ہے۔ اگر اس روایت کی سند صحیح ہے تو پھر غالبا یہ جن ہوں گے کیونکہ وہ بھی مکلفین میں شامل ہیں۔‘‘ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (متوفیٰ 1352ھ) فرماتے ہیں: ’’ محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفیٰ 597 ھ)نے بھی اسی بنیاد پر اس روایت کو رد کیا ہے۔‘‘ [4]
Flag Counter