Maktaba Wahhabi

74 - 114
کے صحت وضعف کا مدار ان کے قائلین کا علمی وسماجی مرتبہ قرار پاتا ہے اور جو شخص جس قدر سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اسی قدر معاشرتی معاملات میں اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔ ترجیح اقوال کے سلسلہ میں بالکل یہی اصول علمی دنیا میں بھی کار فرما ہے اور ایک ہی میدان کار سے تعلق رکھنے والے اصحاب علم کو کسی قول یا موقف کی ترجیح میں ان کے علمی تفوق کو کافی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور یہ اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے کہ جب مختلف موقف کے قائلین کا میدان کار بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہو۔ اس وقت ظاہر بات ہے کہ متعلقہ میدان سے تعلق رکھنے والے صاحب علم کو فوقیت دی جائے گی۔ یہاں جو بات غو رطلب ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف صحیح بخاری کی حدیث ہے، جسے تلقّی بالقبول حاصل ہے اور اس حدیث کے بیان کرنے والے رواۃ ثقہ اور قابل اعتبار ہیں اور دوسری طرف اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ ہیں جو اس کی صحت میں اشکال کا شکار ہیں، تو بلا دلیل اسماعیلی رحمہ اللہ کے اشکال کو قبول کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں جس کی بنا پر صحیح بخاری کی حدیث کونظر انداز کیا جاسکے۔ تعارض اور اس کا حل عام منکرین حدیث چونکہ دو عبارتوں میں تعارض کی صورت میں جمع کے بجائے ترجیح کے قائل ہیں، اس لئے ان کی یہ مجبوری ہے کہ وہ ایک نص کوچھوڑنے کا ارتکاب کرتے ہیں، حالانکہ ایسے مقام میں جمع و تطبیق مقدم ہے اور وہ یہاں بھی ممکن ہے۔ سیدناابراہیم علیہ السلام جانتے ہیں کہ اللہ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتے، لیکن انبیاءعلیہم السلام معصوم تو ہوتے ہیں مگر ان کے معصوم ہونے سے کہاں لازم آتا ہے کہ وہ انسانوں کے دائرہ سے خارج ہوجا تے ہیں۔ اگر کسی حدیث کے ضعف کی بنیاد اسی طرح کی اشیاء بنتی ہیں تو قرآن کریم کی کتنی آیات میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بشری طور پر اس قسم کے اقوال وافعال اور پھر اللہ کی جوابا تنبیہ کا ذکر ہے جو اللہ کی نظر میں انبیاء کے مقام کے مناسب نہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتے لیکن باپ، بیٹے کا رشتہ بھی نازک ہے، چنانچہ روزِ قیامت باپ کو عذاب میں دیکھ کر صبر نہ کرپائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی اپیل کریں گے۔ روایات میں صراحت موجود ہے کہ ان کی گذارش پر اللہ تعالیٰ ان کے باپ کی صورت مسخ کرکے ایک جانور بنادیں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنی رسوائی کی بات سے بری ہوجائیں گے۔ [1] خلاصہ بحث ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان کے والد کو جہنم میں پھینکا جائے گا اور
Flag Counter