Maktaba Wahhabi

73 - 114
خود تراشیدہ اصولوں کا جواز ثابت کیا جارہا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت مزید گھمبیر ہوجاتا ہے جب خود مصنف کتاب اپنے ذو معنی کلام کی کسی دوسرے مقام پر صراحت کرتے ہوئے کسی ایک جانب اپنا رجحان ظاہر کردے۔ اس صورت میں تو مصنف کی آخری اور حتمی رائے کو مانے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں رہتا، کجا یہ کہ اس کے ذومعنی موقف کو ذکر کرکے اپنے اصول ہائے جدیدہ کی آبیاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ علاوہ ازیں ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ یہ چند الفاظ اگر راویوں کا وہم قرار پائیں گے تو باقی طویل حدیث کو آپ کہاں لے جائیں گے؟ وہ بھی انہی راویوں کی روایت کردہ ہے، جنہیں آپ کی ’درایت‘ وہمی کہتی ہے اور اگر وہ باقی حدیث کو قبول کرنے میں ثقہ اور معتبر ہیں تو ان سے مروی ان الفاظ کا بھی اعتبار کیاجاسکتا ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کہے گئے ہیں۔ نیز لڑائی جھگڑے میں اس قسم کے سخت الفاظ کا صادر ہونا درایت کے اعتبار سے محال نہیں ہے، خاص کر جبکہ باپ یا اس کے قائم مقام چچا اپنے بیٹے یابھتیجے سے متعلق ایسے نوکیلے لفظ بولے تو اس میں کسی درایتی معیار کی مخالفت نہیں پائی جاتی۔المختصر علامہ مازری رحمہ اللہ کی تردد پر مبنی عبارت سے اُصول اخذ کرنا یا اسے اپنی حمایت کے لئے پیش کرنا ہر گز معقول نہیں ہے۔ 2۔صحیح بخاری میں روایت ہے کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو دیکھیں گے کہ ان پر ذلت اور سیاہی چھائی ہوئی ہے، تواللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ یا اللہ! آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت کے دن تمہیں رسوا نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں نے جنت کو کافروں پرحرام کررکھا ہے۔ [1] اشکال مذکورہ روایت پر اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ (متوفیٰ 295 ھ) اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ هذا خبر في صحته نظر من جهة أن إبراهیم علم أن اﷲ لایخلف المیعاد، فکیف یجعل ما صار لأبیه خزیا مع علمه بذلك. ‘‘[2] ’’اس روایت کی صحت میں اشکال ہے کیونکہ ابراہیم علیہ السلام جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا تو ان کے والد کا جو انجام ہوا ہو اس کو وہ کیسے اپنی رسوائی قرار دے سکتے ہیں۔‘‘ حل ہمارا معاشرتی سطح پر کسی موضوع سے متعلقہ مختلف اور متعارض اقوال کو پرکھنے کا عام ضابطہ یہ ہے کہ اقوال
Flag Counter