علامہ مارزی رحمہ اللہ ی اصل عبارت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن الفاظ کو ان کے حوالے سے اوپر نقل کیا گیا ہے وہ ان الفاظ کی تاویل میں متردد ہیں اور مذکورہ رائے کو انہوں نے حتماً ذکرنہیں کیابلکہ اس کے علاوہ دوسری رائے کو وہ عمدہ اور اَجود کہہ رہے ہیں، جسے انہوں نے ان الفاظ کی صحت ثبوت کے پیش نظر اختیار کیا ہے۔ علامہ مازری رحمہ اللہ مذکورہ عبارت کے بعد خود ہی فرماتے ہیں: ’’وإذا کان هذا اللفظ لابد من إثباته ولم نضف الوهم إلى رواته فأجود ما حمل علیه أنه صدر من العباس علی جهة الإدلال على ابن أخیه لأنه بمنزلة ابنه وقال ما لا یعتقده وما یعلم براءة ذمة ابن أخیه منه ولعله قصد بذلك ردعه عما یعتقد أنه مخطی فیه. ‘‘[1] ’’جبکہ حضرت عباس کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کہے ہوئے یہ الفاظ حتمی طور پر صحیح ثابت ہیں اور راویوں کا وہم بھی نہیں تو بہترین جواب جس پر ان الفاظ کو محمول کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت عباس سے اپنے بھتیجے علی بن ابی طالب پرناز کے طور پر صادر ہوئے ہیں، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے بیٹوں کی طرح ہی تھے اور باپ اپنے بیٹے کوایسے الفاظ سے خطاب کرلیتا ہے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسے لفظوں سے یاد کیا جن کے دل سے وہ معتقد نہیں تھے اور وہ جانتے تھے کہ علی اس سے بری الذمہ ہیں، چونکہ وہ اس جھگڑے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غلطی پر سمجھتے تھے، شاید ان الفاظ کے استعمال سے ان کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی غلطی سے روکنا ہو۔‘‘ یہ مختصر الفاظ جنہیں ’درایت‘ کے خلاف سمجھ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے دراصل ایک لمبی حدیث میں وارد ہوئے ہیں جسے مفصل ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔اس قسم کی کئی امثلہ کتب حدیث میں موجود ہیں، مثلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف کئی دفعہ مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں تشریف لے گئے۔ اور یہ بالکل عام بات ہے کہ جب باپ یا چچا جیسے رشتہ دار اپنے نفس کو قابو میں کرکے شریعت کا حکم مانتے ہوئے اپنے بیٹوں کے بالمقابل ایک فریق بن کرعدالت پہنچ جائیں تو قلبی رنج عام حالات سے زیادہ ہوتاہے، کیونکہ بہرحال باپ یا چچا بیٹے یا بھتیجے کے برابر نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے گناہ بھی ہوئے اور وہ عادل ہی ہیں، معصوم تو نہیں کیونکہ وہ بھی بالآخر ہماری طرح انسان ہی تھے اس لیے اس قسم کے اقوال کا انسانوں سے صادر ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ خلاصہ کلام ہماری مندرجہ بالا تصریحات سے یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ علامہ مازری رحمہ اللہ رواۃ حدیث کو وہمی قرار دینے میں خود متذبذب ہیں۔ علمی دنیا کی یہ عجیب روایت ہے کہ کسی مصنف کی تردد پر مبنی عبارت سے اپنے |