ہوں۔ مثلًا احادیث قرآن سے ٹکراتی ہیں یا اکثر احادیث باہم متعارض ہیں یا ان میں مسلمہ تاریخی حقائق کے خلاف باتیں پائی جاتی ہیں یا ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنہن اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں غیر مناسب باتیں ملتی ہیں وغیرہ جیسے تمام اعتراضات بعینہ قرآن پر بھی عائد ہوتے ہیں کیونکہ قرآن کی آیات میں بھی اس قسم کی اشیاء موجود ہیں۔ [1] ذیل میں ہم ’اہل درایت‘ کی جانب سے پیش کردہ چند ایسی احادیث نقل کر رہے ہیں جنہیں ان کے زعم میں درایتی معیار پر پورا نہ اترنے کی بنا پرمحدثین کرام رحمہم اللہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے، حالانکہ ان کے راوی ثقہ اور ان کی اسانید متصل ہیں۔ ان احادیث پر آئمہ محدثین رحمہم اللہ کی طرف پیش کردہ اعتراض کو ذکر کرنے کے بعد ہم اعتراض کی حقیقت واضح کریں گے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا ان اقوال کو محدثین سے نقد روایت کے درایتی تصور کو ثابت کیا جانا ممکن بھی ہے یا نہیں! 1۔صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک جھگڑے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ حضرت عباس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’اقض بینی و بین هذا الکاذب الاثم الغادر الخائن. ‘‘[2] ’’میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، بدعہد اور خائن کے درمیان فیصلہ کردیجئے۔‘‘ اشکال اِمام نووی رحمہ اللہ (م 676 ھ) ، علامہ مارزی رحمہ اللہ (متوفیٰ 536 ھ)سے نقل کرتے ہیں: ’’هذا الألفاظ الذی وقع لا یلیق ظاهره بالعباس وحاش لعلى أن یکون فیه بعض هذه الأوصاف، فضلا عن کلها، ولسنا نقطع بالعصمة إلا للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولمن شهد له بها، لکنا مأمورون بحسن الظن بالصحابة رضی اﷲ عنهم أجمعین وننفی کل رذیلة عنه، وإذا انسدت طرق تأویلها نسبنا الکذب إلى رواتها. ‘‘[3] ’’ اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے صادر نہیں ہوسکتے اور ناممکن ہے کہ سیدنا علی کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی ہو اور ہمارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے |