ان کی اسانید متصل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے خود ساختہ درایتی معیار کی سند کو آئمہ محدثین کے ساتھ ملانے کے لیے ان کی طرف منسوب چند اَقوال وآثار کو پیش کرتے ہیں، جن سے ان کا مقصود روایات کے باہمی تعارض کو باور کروانا اور اس تعارض کے پیش نظر ذخیرۂ احادیث کو مشکوک قرار دینا ہوتا ہے۔ خواہ یہ روایات پایۂ ثبوت کے اعتبار سے نہایت اعلی درجہ ہی کی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ وہ بعض آئمہ محدثین رحمہم اللہ کے کلام کو غیرمحل میں پیش کرکے کتبِ احادیث کی چند صحیح ترین روایات کا انکار کردیتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے ان روایات کو اصولِ درایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کیا ہے۔ اہلِ درایت کو ہر حدیث کسی دوسری حدیث یا قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت سے ٹکراتی نظر آتی ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ صحیح روایات میں اس قسم کے تعارض کا حقیقت میں ہونا ہی محال ہے۔ متعارض روایات کے تعارض کو حل کرنے کے لیے محدثین کرام رحمہم اللہ نے جس قدر کوششوں سے کام لیا ہے وہ اس پر پوری امت کے محسن شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ اگر دو شرعی دلیلوں کا آپس میں تعارض ہوجائے تو ائمہ کی پہلی کوشش ان کی باہمی تطبیق وتوفیق کی ہوتی ہے، البتہ جو ائمہ جمع وتطبیق سے قاصر رہتے ہیں تو وہ ایک روایت کو راجح قرار دے کر کم از کم ایک روایت پر عمل بجا لاتے ہیں، لیکن اس کے بالمقابل اگر اسی روایت کے تعارض کو دوسرے آئمہ حل کردیں تو ان کی بیان کردہ موافقت اور جمع کو بہر حال پہلے آئمہ کی بیان کردہ ترجیح یا توقیف پر تقدم حاصل ہوتا ہے، کیونکہ اصول یہی ہے کہ جمع، نسخ، ترجیح اور توقف سے بہر حال مقدم ہوا کرتی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت میں پائی جانے والی دو نصوص کا جو تعارض بظاہر ہمیں دکھائی دیتا ہے اس قسم کا تعارض توقرآن کریم کی دو آیات کے مابین بھی نظر آتاہے، حالانکہ حقیقت میں وہ تعارض نہیں ہوتا ہے۔ اس نادر موضوع پر علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1393 ھ) صاحب تفسیر ’’أضواء البیان‘‘ نے ’’دفع إیهام الاضطراب‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھ کر تفصیل سے قلم اٹھایا ہے۔ اگر صحیح متعارض نصوص کو حل کرنے کے لیے ’درایتی معیارات‘ہی تحقیق کا مناسب اسلوب ہیں تو قرآن مجید میں بھی اصولی طور پر اسی رویہ کو ملحوظ رکھنا پڑے گا، جو توہین کے مترادف ہے۔ اسی لیے آج کل جو لوگ تحقیقِ سند سے قطع نظر متن کی تحقیق کے لیے ’اصولِ درایت‘ پیش کررہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر روایت کی تحقیق کا یہ اصول مسلمہ ہے تو قرآن کریم بھی چونکہ روایت ہی سے ہم تک پہنچا ہے، اس لیے اصولِ درایت کے مسلمہ ہونے کا لازمہ یہ ہوگا کہ روایتِ قرآن کا درایتی نقد بھی کیا جائے۔ بلکہ ہم توکہتے ہیں کہ جن اقوال کو حضرات صحابہ اور محدثین کرام رحمہم اللہ وفقہاء عظام رحمہم اللہ کے حوالے سے پیش کیا جارہا ہے وہ بھی تو روایات ہی ہیں، ان کا بھی درایتی نقد کی روشنی میں ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ الغرض وہ تمام اصولِ درایت جنہیں پیش کرکے سنت کی مرویات کو چھوڑنے کا بہانہ بنایا جا تا ہے، قرآن مجید کی مرویات میں بھی ہو بہو اسی قسم کی تمام کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ پھر اس فرق کوکیوں روا رکھا جاتا ہے کہ حدیث کے لیے تو ’اصول درایت‘ ہوں جبکہ قرآن کے لیے کوئی ’اصولِ درایت‘ نہ |